خاران )ہمگام نیوز) خاران کے عوامی اور سماجی حلقوں نے ظاہر احمد حسین زئی،حوبیار حسرت تگاپی اور دیگر کے ناموں کو فورتھ شیڈول میں ڈالنے پر شدید غمِ اور غصے کا اظہار کر کے کہا کہ ریاست اب بلوچ کی پر امن اور سیاسی آواز سے خوف کا شکار ہے جہاں وہ انسانی حقوق کی پامالی پر کسی بھی اواز کو سننے اور تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔بلوچستان کا ایسا گھر نہیں جو ریاستی جبر کا شکار نہ ہو۔
اسلام کے نام پر بننے والے جھوٹا ملک بلوچوں کے اوپر وہ انسان سوز مظالم ڈاہ رہی ہے جن کے بربریت کی مثال ماضی میں جرمن کے یہودیوں پر مظالم اور یزید کے امام حسین کے لشکر پر ظلم کے داستانوں میں بھی نہیں ملتی ۔پاکستانی ریاست آئے روز بلوچ نوجوانوں کو تعلیمی اداروں اور ان کے گھروں سے اٹھا کر غیر قانونی طور پر رکھنے کے بعد انہیں کسی عدالت میں پیش کئے بغیر شہید کر کے ان کے لاش کسی ویرانے میں پھینک کر انہیں جعلی مقابلوں میں مارنے کے جھوٹے دعوے کرتی ہے۔
جب سول سوسائٹی اور سیاسی کارکن ریاست کے حراست میں بلوچوں کے تیزی سے نسل کشی کے خلاف بولنے اور بلوچوں کو قانون کے تحت سلوک کرنے پر آواز اٹھاتے ہیں تو انہیں فورتھ شیڈول جیسے کالے قانون کے تحت خاموش کرانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں جو وہی طریقہ کار ہے جسے قابض انگریز نے مقبوضہ ہندوستان میں کانگرس کے منظم کارکن اور لیڈرشپ کے خلاف استعمال کی تھی۔
مگر اس تاریخی حقیقت سے کوئی زئی شعور انسان انکار نہیں کر سکتا کہ قابض مسلسل جبر اور ظلم سے مقامی باشندوں کو ان کے بنیادی حقوق سے زیادہ دیر تک محروم نہیں کر سکتا اور بالآخر اس کو اپنے جابرانہ طرز اور تسلط سے دستبردار ہو کر مقامی باشندوں کو امن اور شانتی میں چھوڑنا پڑے گا۔
اخر کار عوامی حلقوں کی طرف سے حکومت وقت پر زور دیا گیا کہ بابو ظاہر احمد حسین زئی اور دیگر سیاسی کارکنوں کے خلاف فورتھ شیڈول کے ناجائز قانون کا فوری طور پر خاتمہ کیا جائے۔