Homeخبریںدس برس سے پاکستان کی دوغلی پالیسی پر تنقید کر رہا ہوں:...

دس برس سے پاکستان کی دوغلی پالیسی پر تنقید کر رہا ہوں: کینیڈین سفارتکار

ٹورنٹو (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق سابق کینیڈین سفارت کار کرس الیگزانڈر کے بقول اس بار پاکستان کے دفتر خارجہ نے ان کی ٹوئیٹ پر ردعمل اس لیے دیا کیونکہ طالبان جنگجوؤں کی تصویر جو انہوں نے شیئر کی تھی وہ حقیقت پر مبنی تھی۔

افغانستان میں طالبان کی بڑھتی جارحیت کی وجہ سے جہاں اس جنگ زدہ ملک میں امن عمل کی افادیت اور امریکی ترجیحات کے بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیں، وہیں پاکستان پر طالبان کی سرپرستی جاری رکھنے کے دعووں نے بھی زور پکڑا ہے۔

ایک جانب اعلیٰ افغان حکومتی عہدیدار مسلسل پاکستان پر دوغلی پالیسی اور درپردہ طالبان کی حمایت جاری رکھنے کا الزام عائد کر رہے ہیں تو دوسری جانب بعض غیر ملکی مبصرین نے بھی اسلام آباد پر طالبان کی پشت پناہی کے دعوے کی تائید کی ہے۔

اس کی ایک مثال سابق کینیڈین سفارت کار کرس الیگزانڈر ہیں جو سال 2003ء سے 2005ء تک افغانستان میں کینیڈا کے سفیر کے طور پر تعینات رہنے کے فوری بعد افغانستان ہی میں اقوام متحدہ کے معاون مشن کے نائب خصوصی نمائندے کے طور پر 2009ء تک فرائض نبھاتے رہے۔

کرس کی ٹویٹ میں کہا گیا کہ یہ تصویر ان طالبان جنگجوؤں کی ہے جو پاکستان سے افغانستان سرحد پار کرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ اگر اب بھی کوئی اس بات سے انکار کرتا ہے کہ پاکستان افغانستان کے خلاف ‘جارحیت کے عمل‘ میں مصروف نہیں ہے تو وہ اس پراکسی جنگ اور جنگی جرائم میں ملوث ہے۔

کرس الیگزانڈر کینیڈا کے وزیر برائے شہریت اور امیگریشن بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے اور پاکستان کے دفترِ خارجہ کے درمیان لفظی ٹکراؤ کی صورتحال ایسے وقت سامنے آئی جب پاکستان کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر معید یوسف اور ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید امریکی دورے پر واشنگٹن میں موجود ہیں۔

کرس کے بقول اس بار پاکستان کے دفتر خارجہ نے ان کی ٹوئیٹ پر ردعمل اس لیے دیا کیونکہ طالبان جنگجوؤں کی تصویر جو انہوں نے شیئر کی تھی وہ حقیقت پر مبنی تھی۔ سابق سفارتکار کے مطابق یہ طالبان جنگجو تھے جو پاکستانی علاقے کُرم ایجنسی سے سرحد پار پکتیا صوبے میں جا رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو تاہم اس دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کرسکا۔

کرس الیگزانڈر کا مزید کہنا تھا کہ واشنگٹن میں پاکستانی وفد اس ہفتے دوحہ میں طالبان رہنماؤں پر مراعات دینے کے لیے دباؤ ڈالنے کے وعدے پر توجہ مرکوز کرے گا: ”طالبان کے حالیہ حملوں کے پیش نظر امریکی ہم منصب شکوک و شبہات کا شکار ہوں گے جس کا مطلب ہے کہ امن عمل اپنے آخری قدموں پر ہے۔‘‘

سابق سفارت کار کے مطابقامریکی انتظامیہ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائی کہ وہ پاکستان کے ساتھ کیسے روابط رکھنا چاہتی ہے: ”فی الحال پاک امریکا تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں، جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے وزیراعظم عمران خان کو فون تک نہیں کیا۔‘‘

Exit mobile version