برلن( ہمگام نیوز)جرمن وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ جرمنی پر خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں امن کے فروغ کے لیے کوششیں کرے۔ انہوں نے یہ کلمات دوسری عالمی جنگ میں نازی جرمنوں کی طرف سے پھیلائی جانے والی بربریت کے تناظر میں ادا کیے۔دوسری عالمی جنگ کے ختم ہونے کے 70 برس مکمل ہونے پر بروز ہفتہ برلن منعقدہ ایک خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے کہا، ’’ دوسری اقوام کے مقابلے میں بالخصوص ہم پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم دنیا میں امن کے قیام کی کوششوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔‘‘ برلن کی صوبائی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے شٹائن مائر کا کہنا تھا کہ وہ خوش ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران متاثر ہونے والے افراد کو یاد کرنے کے عمل میں دیگر ممالک بھی برلن حکومت کے ساتھ ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد جرمنی کی بحالی و تعمیر نو میں امریکا، روس، پولینڈ اور دیگر ممالک کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے شٹائن مائر نے کہا، ’’ اُس وقت، جس طرح آپ نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا، وہ ہمیشہ ہمیں یاد رہے گا۔‘‘ نازی جرمنوں کے دور میں چھ ملین یہودیوں کے قتل عام پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جرمن وزیر خارجہ نے کہا کہ ہولو کاسٹ کے بعد جرمنی اور اسرائیل کے مابین دوستی ایک معجزے سے کم نہیں ہے۔
برلن میں دوسری عالمی جنگ دو مئی 1945ء کو ختم ہو گئی تھی، جس کے ایک ہفتے کے بعد یعنی آٹھ مئی کو جرمن فوجوں نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اسی وقت روسی افواج برلن میں داخل ہو گئی تھیں۔ اس سے قبل تیس اپریل کو جرمن نازی لیڈر ہٹلر نے برلن میں واقع اپنے بنکر میں خود کشی کر لی تھی۔اس ہولناک جنگ کے خاتمے کو یاد کرتے ہوئے مختلف یادگاری تقریبات کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ جرمن میڈیا کے مطابق صدر یواخم گاؤک نے ارادہ ظاہر کیا ہے کہ وہ اس جنگ کو ختم کرانے میں اہم کردار ادا کرنے والی ریڈ آرمی کے فوجیوں کوخراج تحسین پیش کریں گے۔
جرمن صدر گاؤک کے مطابق، ’’آٹھ مئی کو ہم آزاد ہو گئے تھے۔ اس میں سابقہ سوویت یونین کی افواج نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس لیے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کے لیے احترام کا اظہار کریں اور ان کا شکریہ ادا کریں۔‘‘ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ریڈ آرمی نے مشرقی جرمنی میں استحصال اور ظلم و ستم کا بازار بھی گرم رکھا تھا۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل انہی یادگاری تقریبات میں شرکت کرتے ہوئے ماسکو میں نامعلوم فوجیوں کی قبروں پر پھول چڑھائیں گی۔ اس دوران روسی صدر ولادیمیر پوٹن بھی ان کے ہمراہ ہوں گے۔ یہ امر اہم ہے کہ یوکرائن بحران کے تناظر میں متعدد یورپی رہنماؤں سمیت امریکی صدر باراک اوباما نے بھی روس میں منعقد کی جانے والی ایسی تقریبات میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔