واشنگٹن ( ہمگام نیوز) مانٹیرنگ نیوز ڈیسک کی رپورٹ کے مطابق امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک میلی نے پینٹاگان میں اپنے روسی ہم منصب ویلری گیراسیموف سے ملاقات کی۔ ملاقات میں روسی صدر کی اس پیش کش کا جائزہ لیا گیا جس میں ولادی میر پوتن نے واضح طور پر کہا کہ افغانستان میں جنم لینے والے دہشت گردی کے کسی بھی خطرے کا جواب دینے کے لیے وسطی ایشیا میں روسی فوجی اڈے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق گذشتہ بدھ کے روز روسی جوائنٹ چیف آف اسٹاف نے امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی تھی۔
امریکی ذمے داران کا کہنا ہے کہ جنرل گیراسیموف نے ابھی تک ہیلسنکی اجلاس میں کیے گئے وعدوں کو بھی پورا نہیں کیا۔ کرملن ہاؤس نے اس حوالے سے تبصرے سے انکار کر دیا۔
یہ خفیہ مذاکرات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب بائیڈن انتظامیہ افغانستان میں دہشت گردی کے ممکنہ خطرات کی نگرانی اور ان کا جواب دینے کی صلاحیت بڑھانے کے طریقوں پر غور کر رہی ہے۔
دہشت گردی کے خطرے کے حوالے سے امریکا اور روس کے مشترکہ اندیشے ہیں۔ البتہ انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں روس کے ساتھ کام کرنا بالخصوص سیاسی پہلو سے ،،، یہ چیلنجوں سے بھرا ہوا ہے۔
گزشتہ روز جنرل مارک میلی اور وزیر دفاع لائڈ آسٹن کو افغانستان سے تباہ کن انخلا کے حوالے سے ارکان کانگریس کی جانب سے سخت پوچھ گچھ کا سامنا رہا ہوگا ـ
روسی صدر کی جانب سے غیر متوقع طور پر یہ پیش کش کی گئی کہ امریکی فوجی یونٹس تاجکستان اور کرغستان میں روسی فوجی اڈوں کا ستعمال کر سکتے ہیں۔ امریکی ذمے داران کا کہنا ہے کہ اگرچہ پوتن نے یہ بیان دیا تو ہے تاہم یہ نہیں معلوم کہ وہ کس حد تک سنجیدہ ہیں۔
امریکی کانگریس کے بعض ارکان اب بھی ماسکو کی نیت کے حوالے سے شکوک رکھتے ہیں۔