دوشنبه, اپریل 28, 2025
Homeخبریںسرحدکےقریب شہری انڈین فوجی حملے سے بچاو کیلئے حفاظتی بنکرخود تعمیرکرے:حکومت پاکستان

سرحدکےقریب شہری انڈین فوجی حملے سے بچاو کیلئے حفاظتی بنکرخود تعمیرکرے:حکومت پاکستان

مظفرآباد(ہمگام نیوز ڈیسک)پاکستان کے زیر انتظام کشمیر انڈین فوج کی طرف سے امکانی حملے کے پیش نظر ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے پاکستانی ادارے سٹیٹ ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی(SDMA) نے جنگ بندی لائن کے قریب بسنے والوں کو ممکنہ انڈین فوجی حملے سے بچنے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت حفاظتی خندقیں بنانے کی ہدایت کی ہے۔

ایس ڈی ایم اے کی طرف سے سرحدی اضلاع نیلم، جہلم ویلی’ راولاکوٹ، حویلی کوٹلی اور بھمبر کے ڈپٹی کمشنروں سے کہا گیا ہے کہ وہ جنگ بندی لائن سے ملحقہ علاقوں میں رہنے والوں کو آگاہ کریں کہ موجودہ ملکی حالات کے پیش نظر کسی بھی وقت انڈین آرمی کی جانب سے ہدایت نامہ کے مطابق کسی بھی وقت حملہ کی جا سکتی ہے اس لئے جنگ بندی سے ملحقہ مواضعات اور بستیوں میں رہنے والے لوگ مکمل حفاظتی تدابیر اختیار کریں اور آمد و رفت کے لیے محفوظ راستے اختیار کریں۔ ہدایت نامے میں اجتماع سے بھی منع کیا گیا ہے۔ ایل او سی کے قریب واقع آبادیوں سے، جہاں بنکر نہیں ہیں، وہاں فوری طور پر بنکرز تعمیر کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔

حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ رات کو غیر ضروری روشنی کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ ایل او سی کے قریب واقع سٹرکوں پر غیر ضروری سفر سے گریز کیا جائے۔ لائن آف کنٹرول کے قریب واقع چراگاہوں میں مویشی لے جانے سے اجتناب کا کہا گیا ہے۔

ایس ڈی ایم کے ناظم راجہ سجاد خان نے میڈیا کو بتایا کہ سرحدی علاقوں میں لوگوں کو فوری طور پر اپنی مدد آپ کے تحت مورچے تعمیر کرنے پڑینگے تاکہ وہ ہنگامی صورت حال میں خود کو محفوظ رکھ سکیں۔حکام کے مطابق پاکستانی کنٹرول کے کشمیر کی 7 لاکھ سے زیادہ آبادی جنگ بندی لائن یا ایل او سی کے ساتھ رہتی ہے، جو آئے روز حد بندی پار کی گولہ باری اور فائرنگ کی زد میں آتی رہتی ہے۔جنگ بندی لائن کے قریبی علاقوں میں غربت اور پسماندگی عام ہے۔ وہاں زیادہ تر لوگ محنت مزدوری کر کے گزر بسر کرتے ہیں۔چکوٹھی کے ایک رہائشی محمود احمد کا کہنا ہے کہ محنت مزدوری سے بمشکل اس کے گھر کا چولہا جلتا ہے۔ اور اس کے پاس اپنے گھر کی چھت پختہ کرانے کے لیے بھی مالی وسائل موجود نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سرحدی علاقوں کی 90 فی صد آبادیوں کے پاس بنکر اور پناہ گاہیں نہیں ہیں۔اسی قصبے کی ایک خاتون نے بتایا کہ اس نے تین سال پہلے اپنی بھینس بیچ کر ایک بنکر بنوایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز