جمعه, نوومبر 29, 2024
Homeخبریںسیاسی اشتہارات کی پابندی کیلئے 900 سے زائد کمپنیوں کا فیس بک...

سیاسی اشتہارات کی پابندی کیلئے 900 سے زائد کمپنیوں کا فیس بک پر دباؤ

سیاسی اشتہارات کی پابندی کیلئے 900 سے زائد کمپنیوں کا فیس بک پر دباؤ

امریکہ (ہمگام نیوز) سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک کی انتظامیہ اس بات پر غور و فکر کر رہی ہے کہ اس سال ہونے والی انتخابات سے پہلے آیا اسے اپنے نیٹ ورک پر سیاسی اشتہارات چھاپنے پر پابندی عائد کرنی چاہیے۔

امریکی خبر رساں ادارے بلوم برگ نے اس خبر کے حوالے سے کہا ہے کہ اسے اس بات کا علم فیس بک سے وابستہ لوگوں کے ذریعہ ہوا ہے۔

البتہ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ابھی اس معاملے پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا اور کمپنی کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ادارہ اس خبر پر کسی بھی قسم کا تبصرہ نہیں کر رہا۔

میڈیا رپورٹوں میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ فیس بک کو سیاسی اشتہارات اور تقاریر کے حوالے سے اس کی جانچ پڑتال نہ کرنے کی وجہ سے تنقید کا سامنا ہے۔

گزشتہ سال ایک اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر نے سیاسی اشتہاروں کے پوسٹ کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔ لیکن فیس بک نے حالیہ برسوں میں یہ مؤقف اختیار کیا کہ کمپنی سیاسی بحث مباحثے کو دبانا نہیں چاہتی۔

صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے عہدیداروں اور حزب اختلاف کی ڈیموکریٹک جماعت نے ابھی کھل کر اس بات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

اس سال جون میں ڈیموکریٹک جماعت کے متوقع امیدوار جو بائیڈن نے فیس بک کے بانی اور چیف ایگزیکٹو افسر مارک زکربرگ کے نام لکھے گئے ایک خط میں تجویز دی تھی کہ انتخابات سے دو ہفتے پہلے کمپنی سیاست دانوں کی طرف سے پوسٹ کیے گیے اشتہارات کی چھان بین کرے۔

ایک ٹوئٹر پوسٹ میں بائیڈن کی مہم کے ڈیجیٹل ڈائریکٹر راب فلے ہرٹی نے فیس بک پر چھپے مواد میں غلط اطلاعات کی موجودگی کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ انہوں نے اس شکایت کا اظہار کیا کہ فیس بک پر 80 فی صد بغیر معاوضہ کے چھپا ہو ا مواد اصل مسئلہ ہے نہ کہ سیاسی اشتہارات۔

رائٹرز کی ایک خبر کے مطابق حالیہ دنوں میں قانون سازوں اور فیس بک کے اپنے ملازمین نے بھی اس بات پر تنقید کی ہے کہ کمپنی نے صدر ٹرمپ کی شعلہ بیانی والی پوسٹس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

دریں اثنا 900 سے زائد کمپنیوں نے فیس بک کو اشتہارات نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ دنیا کے سب سے بڑے سوشل میڈیا نیٹ ورک پر دباؤ ڈالا جا سکے کہ وہ نفرت انگیز مواد اور غلط اطلاعات کو اشاعت سے روکے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز