شال:(ہمگام نیوز) لاپتہ افراد کی باحفاظت بازیابی کیلئے جاری احتجاجی کیمپ کو 5607 دن ہو گئے ہیں۔ حب چوکی سے سیاسی اور سماجی کارکنان خان محمد مری، نثار احمد مری، یاسر مری اور دیگر نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کیا۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (وی بی ایم پی) کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ قابض فوج نے ڈیرہ بگٹی اور سوئی کو مکمل اپنے محاصرے میں لے کر چادر اور چار دیواری کی پامالی کی۔ فوج نے بلوچوں کے گھروں میں گھس کر نہ صرف خواتین اور بچوں سے بدتمیزی کی، بلکہ ان پر غیر انسانی تشدد کرتے ہوئے لوٹ مار کی اور گھروں کو نذرِ آتش کر دیا۔ اس دوران چار افراد کو جبری لاپتہ کیا گیا، جن میں احمد علی ولد روشن بگٹی، ستر سالہ بزرگ روشن علی بگٹی، طارق بگٹی ولد سفر خان بگٹی، اور جمعہ خان بگٹی ولد الہ دین بگٹی شامل ہیں، جو تاحال لاپتہ ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ اگر ہم گزشتہ ایک ماہ کے ایسے وحشیانہ واقعات پر غور کریں، تو کئی مثالیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ جیسے کہ حالیہ دنوں میں قابض فورسز نے تربت میں ایک وسیع پیمانے کا آپریشن شروع کیا، جہاں آدھی رات کو سینکڑوں فوجیوں کے ذریعے علاقوں کو گھیرے میں لے لیا گیا۔
یہ پاکستان کی فوج کشی کی چند مثالیں ہیں۔ اس کے علاوہ، ریاستی قابض فورسز نے کوہلو، مستونگ، بولان، اور ہرنائی سمیت کئی بلوچ علاقوں میں اسی طرح کے آپریشن کیے ہیں اور اب بھی کر رہی ہیں۔ جس طرح قابض ریاست اپنے دوسرے حربوں سے بلوچ قوم کو زیر نہیں کر سکی، نہ انہیں خوفزدہ کر سکی، اور نہ ہی عوامی حمایت حاصل کر سکی، اسی طرح یہ گھیراؤ اور جلاؤ کی پالیسی بھی بلوچوں کے عزم کو کمزور نہیں کر سکی۔
بلوچ قوم نے اپنا مقصد چن لیا ہے اور وہ جان چکی ہے کہ ان کی اجتماعی اور انفرادی بقا صرف ایک خوشحال بلوچ معاشرے میں ہی ممکن ہے، جہاں وہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کر سکیں گے۔ اب، نہ صرف بلوچ ان ریاستی مظالم کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں، بلکہ ان کا مردانہ وار مقابلہ بھی کر رہے ہیں اور حصولِ مقصد تک تحریک جاری رہے
گی۔