دمشق(ہمگام نیوز) امریکہ کی اتحادی افواج نے لبنان اور شام کی سرحد کے قریب شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کے قافلے روکنے کے لیے فضائی حملے کیے ہیں۔ اتحادی افواج کا کہنا ہے کہ ان فضائی حملوں میں دولتِ اسلامیہ کے قافلے کو نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ مشرقی شام کی سرحد کی جانب سڑک کو تباہ کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے اتحادی افواج نے دولتِ اسلامیہ اور لبنان، شامی افواج اور حزب اللہ کے مابین ہونے والے مذاکرات کی مذمت کی تھی۔ مذاکرات کے بعد دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کو نکلنے کے لیے محفوظ راستے دینے پر اتفاق ہوا تھا۔ دولتِ اسلامیہ کو شکست دینے کے لیے اتحادی افواج کے سربراہ بریت میگریک نے کہا کہ ‘دہشت گردوں کو میدانِ جنگ میں مار دینا چاہیے۔’ انھوں نے کہا کہ اتحادی افواج اس بات کی یقین دہانی کروانا چاہتی ہیں شام اور لبنان کی سرحد قصبے سے نکلنے والے دہشت گرد عراق میں داخل نہ ہو سکیں۔ یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے لبنان، شام کی افواج اور حزب اللہ نے دولتِ اسلامیہ کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کیا تھا۔ جنگ بندی کا یہ معاہدہ سرحدی علاقوں میں جہادیوں کے خلاف آپریشن کے چند دن بعد ہوا ہے۔ معاہدے کے تحت سنہ 2014 میں اغوا کیے گئے لبنانی افواج کے سپاہیوں کی لاشیں دینے کے عوض 670 دہشت گردوں اور اُن کے خاندانوں کو شام کا سرحدی قصبہ البو کمال چھوڑنے کی اجازت دی گئی تھی۔شام کا یہ قصبہ عراق کی سرحد سے چھ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس سے قبل لبنان کے وزیراعظم نے دہشت گردی کو ختم کرنے پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے عوام سے کہا تھا کہ وہ اپنی ‘افواج پر فخر’ کریں۔ لبنان کی فوج کے سربراہ نے دولتِ اسلامیہ کے ساتھ کیے گئے معاہدے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ گمشدہ سپاہیوں کا پتہ لگانا چاہتے تھے اور مزید جانوں کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ‘میرے پاس دو چیزیں تھیں، یا تو میں لڑتا رہتا یا پھر اس کا حل تلاش کرتا۔ یہ روحیں (فوجیں) میری ذمہ داری ہیں۔ اتحادی افواج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ فضائی حملوں کا مقصد قافلہ روکنے کے لیے راستہ بلاک کرنا تھا اور ‘وہ (اتحادی افواج) جہادیوں کے ساتھ کسی معاہدے میں فریق نہیں ہیں۔ ‘اتحادی افواج نے دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کی نقل و حمل روکنے کے لیے عراق کے سرحدی علاقے میں سڑک تباہ کر دی ہے، جس سے دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کا قافلہ روک گیا ہے۔’ عراق کے صدر حیدر العبادی نے بھی دولتِ اسلامیہ کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے پر تنقید کی تھی اور اسے ‘عراق عوامی کی تذلیل قرار دیا تھا۔’ انھوں نے کہا تھا کہ ‘ہم عراق میں دہشت گردوں سے لڑ رہے ہیں اور انھیں شام نہیں بھجوا رہے ہیں۔