مشکے / پسنی / شال : شہید بانک کریمہ کے دوسرے یوم شہادت کے موقع پر بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی کال پر عمل کرتے ہوئے مشکے ھنکین اور پسنی بنزہ کی طرف سے یادگاری پروگرامات کا انعقاد کیا گیا جبکہ شہید بانک کریمہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بی این ایم کی طرف سے آنلائن پروگرام نشر کیا گیا جس سے بی این ایم کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ، سابق چیئرمین خلیل بلوچ، سینئر وائس چیئرمین بابل لطیف، خارجہ سیکریٹری ھمل حیدر، سینئر جوائنٹ سیکریٹری کمال بلوچ اور ایچ آر سی بی کے کوارڈینیٹر تاج بلوچ نے خطاب کیا۔
اس موقع پر مقررین نے شہید بانک کریمہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا وہ بلوچستان کے گنے چنے شخصیات میں سے ہیں جنھوں نے بلوچ قومی سیاست کو ایک نئی جہت سے روشناس کرایا اور اپنے کردار و عمل سے بلوچ عوام کی کثیرتعداد کو متاثر کیا۔وہ نا صرف بلوچ قوم کے لیے ایک مثالی رہنماء تھیں بلکہ تمام محکوم اقوام ان کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔
مقررین نے کہا بانک کریمہ نے ہر محاذ پر نہایت بہادری کے ساتھ بلوچ قوم کا مقدمہ پیش کیا۔جب بی ایس او کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن زوروں پر تھا اور بی ایس او کے چیئرمین زاھد بلوچ سمیت کابینہ کے رہنماء جبری گمشدگی کا نشانہ بن چکے تھے انھوں نے بی ایس او کی قیادت سنبھالی اور اپنے نظریے اور ساتھیوں کی بازیابی کے لیے ایک طویل اور کھٹن جدوجہد کی قیادت کی۔
بی این ایم کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم نے کہا شہید بانک کریمہ بلوچ ایک سیاسی خاندان میں جنمیں لیکن انھوں نے اپنی وراثت کو کئی بہتر طریقے سے آگے بڑھایا۔ان کے خاندان میں شہید ڈاکٹر خالد اور استاد واحد کمبر جیسی شخصیات کا ان کی تربیت اور نظریاتی آبیاری میں نمایاں کردار رہا ہے لیکن انھوں نے آگے چل کر اپنی صلاحیتوں سے بلوچ قوم میں اپنے لیے ایک معتبر اور منفرد مقام پیدا کیا۔انھیں اپنی زندگی ہی میں لمہ (مادر / ماں) کا خطاب مل چکا تھا جو اپنے آپ میں ایک اعزاز ہے۔ہم آج انھیں اس لیے یاد نہیں کرتے کہ وہ آج ہمارے درمیان نہیں بلکہ وہ اپنا مقام اپنی زندگی میں ہی بنا چکی تھیں آج ہم انھیں اس لیے زیادہ یاد کرتے ہیں کہ ہم بتا سکیں کہ ہم ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔
انھوں نے کہا پاکستانی ریاست بلوچ قوم کے شہداء کو قتل کرنے کے بعد بھی ان کی قبروں سے خوفزدہ ہیں۔شہید اکبر خان بگٹی کی قبر میں ایک تالا لگی تابوت دفن کی گئی جبکہ 14 سال بعد شہید بانک کریمہ کی میت کے ساتھ بھی ناروا سلوک کیا گیا اور ان کی شہادت کے دوسال گزرنے کے بعد بھی ان کی قبر کی تعمیر نہیں کرنی دی جا رہی جو ریاست پاکستان کے حکام کی نفسیاتی شکست اور اخلاقی پستی کو ظاہر کرتے ہیں۔
ڈاکٹر نسیم نے کہا کہ شہداء کی شہادت ہمیں کمزور نہیں کرتیں بلکہ ان سے ہمیں مزید توانائی اور ہمت ملتی ہے جس طرح شہید بالاچ اور شہید غلام محمد کی شہادت کے بعد ہمارے عزم توانا ہوئے شہید بانک کریمہ کی شہادت نے ہمیں اس سے زیادہ توانائی بخشی اور ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم ان کے مقصد کی تکمیل کے لیے اسی عزم کے ساتھ جہدوجہد کرتے رہیں گے۔
بی این ایم کے سابق چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا ان کی زندگی میں ہمیں کبھی کبھار یہ لگتا کہ شاید گفت و شنید میں ان کی آواز بلند ہے، یا وہ اپنی عمر اور ان ذمہ داریوں کی وجہ سے کبھی سخت تنقید کرتے ہیں لیکن آج ہم یہ بہتر طور پر سمجھتے ہیں کہ وہ ایک مضبوط رہنمایانہ کردار کی مالک تھیں۔جب سخت حالات میں دشوار گزار سفر کی ضرورت پیش آئی تو وہ کسی سے پیچھے نہ رہیں اور انھوں نے ہر وہ جگہ اپنی موجودگی یقینی بنائی جہاں ان کی ضرورت تھی۔فیصلہ سازی میں بھی ان کا نمایاں کردار ہوتا تھا۔
بی این ایم جونیئر وائس چیئرمین بابل لطیف بلوچ نے کہا بانک کریمہ سمیت دیگر شہداء نے بلوچ قوم کی آزادی کے لیے اپنی زندگیاں نچھاور کی ہیں تاکہ غلامی کے تاریک دور کا خاتمہ ہو اور بلوچ قوم کو بھی آزادی کا روشن دن دیکھنا نصیب ہو ہمیں شہداء کی جدوجہد کو منزل مقصود تک پہنچانا ہوگا۔
ھمل حیدر نے کہا بانک کریمہ نے ہمارے پسماندہ سماج میں خواتین کو جدوجہد کا راستہ دکھایا۔ان کی سیاسی جدوجہد کی وجہ سے آج بلوچ سیاست میں خواتین کی شرکت میں نمایاں اضافہ ہوچکا ہے۔ آج لوگ اپنی بیٹی اور بہنوں کی سیاست میں شرکت پر فخر کرتے ہیں جو بانک کریمہ کی جہدوجہد کا حاصل ہے۔شہید بانک کریمہ ایک دوٹوک شخصیت تھیں جب وہ کسی بات کو غلط جانتیں تو اس کی سختی سے مخالفت کرتی تھیں اور جب انھیں کسی بات کی سچائی کا یقین ہوتا تو اس پر ڈٹ جاتی۔
ایچ آر سی بی کے کوارڈینیٹر تاج بلوچ نے کہا ہمیں صرف لفاظی کی حد تک بانک کریمہ کو خراج تحسین پیش نہیں کرنا چاہیے بلکہ بانک کریمہ کے خاندان نے جس طرح ان کی تربیت اور انھیں وہ ماحول دیا جس سے بانک کریمہ جیسی شخصیت پیدا ہوئیں ہمیں بھی اپنی بیٹی اور بہنوں کو وہی تربیت اور ماحول دینا چاہیے کہ کل وہ بھی بانک کریمہ بن سکیں۔
بی ایس او میں ان کی کابینہ کا حصہ رہنے والے بی این این یم کے سینئر جوائنٹ سیکریٹری کمال بلوچ نے کہا شہید بانک کریمہ بلوچ ہمیشہ تنظیمی فیصلے کے پابند تھیں۔جب بی ایس او کے جبری لاپتہ چیئرمین زاھدبلوچ کی بازیابی کے لیے بی ایس او نے تادم مرگ بھوک ہڑتال کا فیصلہ کیا تو بھوک ہڑتال پر بیٹھنے کے لیے انھوں نے سب سے پہلے اپنا نام پیش کیا لیکن تنظیم نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ان حالات میں تنظیم کی رہنمائی کریں گی جس کی اشد ضرورت ہے۔اسی طرح وہ کسی بھی حال میں بیرون وطن جانا نہیں چاہتی تھیں لیکن بی ایس او نے یہ فیصلہ کیا کہ بانک کریمہ اور لطیف جوہر بیرون وطن جاکر بلوچ قوم کا مقدمہ لڑیں گے اور جو کام وطن میں ممکن نہیں انھیں باہر انجام دیں گے۔
کمال بلوچ نے کہا جب وہ بلوچستان میں تھیں تب بھی ان کی زندگی کو سنگین خطرات لاحق تھے انھیں فون کرکے یہ کہا جاتا تھا کہ ان کے جبری لاپتہ ساتھی ان کے قید میں ہیں اگر وہ اپنے نظریات اور پروگرام سے تائب ہوں تو انھیں رہا کردیا جائے گا لیکن بانک کریمہ نے زند گی اور آسائش کے بدلے اپنے نظریے سے منحرف ہونا قبول نہیں کیا بلکہ سخت جدوجہد اور کھٹن زندگی کا انتخاب کیا۔