کوئٹـ(ہمگام نیوز) بی ایس اوآزاد کی جانب سے جھاؤ میں شہید رضا جہانگیر،شہید امداد بُجیر و شہدائے اگست کی یاد میں جلسہ عام منعقد کیا گیا۔جلسے کی صدارت بی ایس او آزاد کے مرکزی جونئیر وائس چئیرمین کمال بلوچ نے کی جبکہ مہمان خاص بی این ایم کے مرکزی رہنماء ڈاکٹر شئے بلوچ تھے۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بی ایس او آزاد کے مرکزی رہنماء کمال بلوچ نے کہا کہ زندہ قومیں اپنے شہیدوں کی قربانیوں کو یاد کرتے ہیں،جو قومیں اپنے شہیدوں کی عظیم مقاصد کے لئے جدوجہد کرتے ہیں تاریخ ہمیشہ انہیں سنہرے الفاظ سے یاد رکھے گی۔انہوں نے کہا کہ بلوچ عوام کو اپنے سرزمین کی اہمیت و افادیت کو سمجھنا چاہیے، اپنی جغرافیائی اہمیت اور ایک اہم خطے میں واقع ہونے کے سبب پنجابی قابضین و عالمی توسیع پسندانہ سوچ رکھنے والی قوتیں بلوچ سرزمین کی اہمیت سے اچھی طرح سے واقف ہیں۔ اسی لئے وہ بلوچ نسل کشی کے لئے پاکستان کی کمک کررہے ہیں۔ہم ایک ایسی سرزمین کے مالک ہیں جہاں سے پوری دنیا کے لئے تجارتی گزرگاہیں جاتی ہیں،چائنا یہاں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے لئے پاکستان جیسے غیر ذمہ دار ریاست پر بھروسہ کررہی ہے، لیکن اس بھروسے کے پیچھے اصل محرک بلوچ سرزمین کی جغرافیائی اہمیت ہے، بلوچ سرزمین کے اندر چھپے وہ معدنیات ہیں جنہیں ٹیتھیان، پاکستانی و چائینی کمپنیاں لوٹنے میں ایک دوسرے سے بازی لیجانے کی کوششوں میں ہیں۔کمال بلوچ نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آزادی کی جدوجہد چند لوگ شروع کرتے ہیں اور اپنی پیغام کو عوام تک پہنچاتے ہیں۔ لیکن عوامی مدد کے برعکس جدوجہد کامیا ب نہیں ہو سکتے۔ آج یہاں پر اتنی بڑی تعداد میں مجمع کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچ فرزندان کو اپنی قومی آزادی کی ضرورت کا شدت سے احساس ہو چکا ہے۔یہی احساس آزادی و انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔انہوں نے کہا کہ سخت حالات میں جدوجہد کو انہی لوگ کامیابی سے رہنمائی کرسکتے ہیں جو حالات کے سامنے جھکنے کے بجائے مرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔جو لوگ جنہیں اپنی زندگیاں شہیدوں کی ارمانوں اور قومی مقاصد سے زیادہ عزیز ہیں، ایسے لوگ اپنی موت سے پہلے مرجاتے ہیں۔کیوں کہ خوف، لالچ و مراعات کی خواہش انہیں اندھا کرکے ذاتی زندگی کی رنگینیوں میں لے جاتی ہے، جہاں ان کے دلوں میں قومی غلامی کے خلاف احساس پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔انہوں نے کہا کہ جدوجہد ہمیشہ تعداد میں کم با ہمت لوگ شروع کرتے ہیں۔ بی ایس او آزاد کی بنیاد بھی ڈاکٹر اللہ نزر بلوچ نے چند دوستوں کے ہمراہ رکھی، لیکن ان کی محنت و کوششوں سے بی ایس او آزاد پورے بلوچستان میں موجود ہے۔ کچھ لوگ اپنے انا کی تسکین کی خاطر بی ایس او آزاد و قومی تحریک کے اداروں کے خلاف اپروپگنڈہ کررہے ہیں، انہیں یہ بات جان لینی چاہیے کہ بلوچستان کی آزادی میں صرف موجودہ پارٹیوں کی نہیں بلکہ بلوچ عوام کے تمام طبقات کی بقاء ہے۔آنے والے نسلوں کی بقاء بھی بلوچستان کی آزادی سے مشروط ہے۔آج چند نام نہاد سیاست دان پاکستانی پارلیمنٹ میں جا کر اپنی بقاء کو پاکستان میں ڈھونڈنے کی لاحاصل کوشش کررہے ہیں، انہیں بھی اس بات کا ادراک ہے کہ پاکستانی فوج کی مرضی کے بغیر پارلیمنٹ و وزراء کچھ نہیں کرسکتے۔ بلوچ نسل کشی کے لئے پاکستانی فوج نے بندوق انہی کے کاندھوں پر رکھی ہوئی ہے لیکن خوف، مراعات و لالچ نے انہیں خاموش کیا ہوا ہے۔ لالچ کا حصول اور اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لئے ڈاکٹر مالک، ثناء اللہ زہری، و دیگر پاکستانی پارلیمانی پارٹیاں و گماشتے سردار بلوچ نسل کشی میں
پاکستانی فوج کی مدد میں پیش پیش ہیں۔ پاکستانی گماشتوں کو یہ تلخ حقیقت بہت جلد یا بدیر تسلیم کرنا ہو گا کہ ایک قوم کو نہ خوفزدہ کرکے زیر کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی لالچ و مراعات سے بلوچ قوم اپنی ہزاروں سالہ شناخت و مادر وطن سے دستبردار ہوں گے۔بلوچ قومی آزادی کی تحریک ایک شعوری تحریک ہے، اس تحریک میں شامل تمام جہد کار و عوام اپنی قومی غلامی کا احساس اور غلامی کی تضحیک آمیز زندگی کی حقیقتوں کا ادراک کرکے جدوجہد میں شامل ہیں۔ پاکستان کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے لئے شاید سرداروں و نوابوں کو بڑی مقدار میں مراعات پہنچائے لیکن آزادی جیسے نعمت کو پیسوں سے خریدا نہیں جاتا۔ اور نہ ہی عظیم شہدا کی ارمانوں کی قیمت آزاد بلوچستان سے کم ہے۔وہ مائیں جنہوں نے رضا جہانگیر، شہید سلیمان، نواب اکبر خان بگٹی، شہید امداد بُجیر،ڈاکٹر خالد و ہزاروں بہادر ثپوت پیدا کیے جنہوں نے ہنستے ہوئے اپنی زندگیاں قربان کیں۔ ایسے فرزندان کے حوصلے نہ صرف بلوچ نوجوانوں کے لئے بلکہ پوری دنیا کی قوم دوست و آزادی پسند انسانوں کے لئے رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ان کے حوصلوں کو پاکستانی گماشتے مجید بزنجو، ڈاکٹر مالک یا ریاستی ، فوجی قوت ختم نہیں کر سکتی ۔کمال بلوچ نے کہا کہ بلوچ قومی تحریک کی مضبوطی دشمن کی صفوں میں ہنگامہ برپا کر چکی ہے، روزانہ کی بنیاد پر دھمکی آمیز بیانات و مراعات کی پیشکشوں سے ریاستی ادارے اپنی شکست خوردگی کا اظہار کرر ہے ہیں۔فوجی قوت کی بے دریغ استعمال کے ساتھ ساتھ اب مذہبی شدت پسندوں کا سہار ا لیا جا رہا ہے۔ تاکہ تحریک آزادی کا رخ دوسری طرف موڈا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ ہماری تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے، بلوچ سب سے زیادہ اپنی روایات و اقدار کو عزیز سمجھتے ہیں۔ ہزاروں سالہ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جہاں مذہب و فرقوں کے نام پر بلوچ قوم آپس میں لڑ پڑا ہو۔ آج پاکستانی اداروں کی تربیت سے فارغ شدہ چند نام نہاد ملا سیکولر بلوچ معاشرے کو پراگندہ کرنے کے لئے اسلام کے نام کا سہارا لے رہے ہیں۔ لیکن ان کی یہ سازش بھی ناکام ہو گی کیوں کہ بلوچ عوام اس حقیقت کا ادراک کر چکی ہے کہ تمام برائیوں ، بد امنی، ناخواندگی،کی اصل جڑ غلامی ہے۔ غلامی کو ختم کرکے ہی ان کے نام نہاد ملاؤں، سرداروں ، و نام نہاد موقع پرست پارٹیوں سے چھٹکارا پایاجا سکتا ہے۔بی این ایم کے مرکزی رہنماء ڈاکٹر شے بلوچ نے اپنے خطاب میں بلوچ شہدا کو سرخ سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ شہدا کی مقدس خون ہماری رہنمائی کررہی ہے۔شہدا کی قربانیاں جدوجہد کو اس حد تک منظم کر چکے ہیں کہ دشمن کے ادارے خوفذدہ ہیں۔اس جلسے میں خواتین و بچوں کی بڑی تعداد میں شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچ عوام اپنی آزادی کی جدوجہد میں متحد ہیں۔ یہ ہماری اور آپ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بچو ں کی تربیت کریں، انہیں غلامی و آزادی کے فرق کو سمجھائیں،کیوں کہ غلامی و آزادی کے تضادات کو قابض ریاست نے حتی الوسع کوشش کی ہے کہ بلوچ نوجوانوں سے چھپائے، اگر ہم اپنے بچوں کو ان تضادات کے بارے میں آگاہ کرنے میں کامیاب ہوئے تو کوئی طاقت و ہتکھنڈہ بلوچ تحریک کے سامنے رکاوٹ نہیں بن سکتی۔شئے بلوچ نے کہا کہ تحریکیں اگر آپریشنوں، گرفتاریوں اور گھروں کو جلانے سے ختم ہو جاتے تو بلوچ تحریک کب کا ختم ہو چکا ہوتا۔ شہید غلام محمد،شہید رضا جہانگیر، شہید نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت، چیرمین زاہد بلوچ، زاکر مجید بلوچ سمیت ہزاروں فرزندان کی گرفتاری کے باوجود بھی جدوجہد روز بہ روز شدت کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ پاکستان کو یہ حقیقت مان لینا ہو گا کہ وہ بلوچستان میں ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہا ہے۔ بلوچ عوام کی مرضی کے برعکس بلوچستان میں کھربوں ڈالرزکی سرمایہ کاری کسی صورت بلوچ عوام سے برداشت نہیں ہوتی کیوں کہ سڑکوں کی تعمیر یا بلوچ سرزمین کو چائنا سے ملانے والی ریلوے لائن و سڑکوں کو بلوچ قوم اپنے لئے ڈیتھ وارنٹ قرار دے چکی ہے۔دشمن یہ پروپگنڈہ کررہی ہے کہ بلوچ ترقی کے مخالف ہیں، لیکن یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ دورانِ غلامی ترقی محکوم کے مفاد کے لئے نہیں بلکہ انہیں اقلیت میں بدلنے کے لئے ترقی کے نام پر سڑکوں و دیگر استحصالی پروجیکٹوں کی بنیادیں رکھی جاتی ہیں۔ بلوچ فرزندان اپنی آزاد ریاست کی بحالی کے بغیر اس طرح کی استحصالی پروجیکٹوں کے خلاف ہر محاز پر جدوجہد کرتے رہیں گے۔جلسے سے بی ایس او آزاد جھاؤ زون کے صدر گل جان بلوچ نے بھی خطاب کیا۔