کوئٹہ ( ہمگام نیوز) بلوچستان یونیورسٹی سے لاپتہ طالبعلم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کی عدم بازیابی ، حکومت وفد کی اپنے ہی معاہدے سے روگردانی اور یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے احتجاجی پینافلکس اور بینرز اتارنے کے خلاف طلبا تنظیموں کی جانب سے یونیورسٹی کے اندر ایک احتجاجی سرکل اور ریلی کا انعقاد کیا گیا جس میں بی ایس او، بی ایس او پجار، بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی ، پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور پی ایس ایف کے کارکن شریک ہوئے. احتجاجی سرکل میں گفتگو کرتے ہوئے طلبا نمائندگان نے لاپتہ طلبا کی عدم بازیابی کو قابل تشویش عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ 20 دن کی احتجاجی دھرنا، حکومتی وفد کی طلبا سے مذاکرات، مذاکراتی کمیٹی کی پندرہ دن کے اندر طلبا کے بازیابی کی یقین دہانی کے باوجود لاپتہ طالبعلم پچھلے دو ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی منظر عام پہ نہیں لائے گئے. اس دوران حکومتی نمائندوں سے بار بار رابطہ کرنے کے باوجود کسی قسم کا جواب نہ ملنا اس بات کا عندیہ ہے کہ وہ اپنے کیے گئے معاہدے سے روگردانی اختیار کرچکے ہیں جو کہ احتجاجی طلبا سمیت لاپتہ طالبعلموں کے ساتھ دھوکہ دہی کے زمرے میں آتا ہے.
مقررین نے مزید خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس احتجاج کی توسط سے ایک بار پھر حکومتی نمائندوں کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے زبان کی پاسداری کا خیال رکھیں اور لاپتہ طلبا کی بازیابی کو یقینی بنائیں. اور یونیورسٹی انتظامیہ بھی اس معاہدے اور نوٹیفکیشن کی پاسداری کریں جس میں یہ واضح کہا گیا کہ لاپتہ طالبعلموں کی بازیابی تک یونیورسٹی تمام تر سرگرمیوں کیلیے بند رہے گی. لیکن اس کے باوجود یونیورسٹی انتظامیہ کبھی میڈیکل طلبا کے امتحانات لینے کا نوٹیفکیشن، تو کبھی یونیورسٹی کیمپسز کو کھولنے کے احکامات جاری کرتا ہے. اور یونیورسٹی گیٹ کے سامنے آویزاں پوسٹرز کو بھی انتظامیہ کی جانب سے ہٹایا گیا. ہم اس تمام عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں. طالبعلموں کی بازیابی کیلیے جدوجھد میں سبھی اداروں کے طالبعلموں کا شروع سے ہی ہمیں تعاون حاصل رہا ہے جو ہنوز جاری ہے. لیکن میڈیکل فائنل ائیر کے طالبعلموں کا عدالت جانے کا عمل ہزاروں احتجاجی طلبا کے دل آزاری کا باعث بنا ہے. طلبا کی بازیابی کیلیے صوبے بھر کے طالبعلموں نے اپنے کلاسز اور امتحانات کا بائیکاٹ کیا تھا اور آج بھی یونیورسٹی اور یونیورسٹی سے منسلک اداروں کے ہزاروں طلبا اپنے لاپتہ ساتھیوں کی بازیابی کیلیے اپنے کلاسز اور امتحانات سے آج بھی بائیکاٹ پہ ہیں. لیکن چند طالبعلموں نے ہزاروں طلبا کے مستقبل کو پس پشت ڈال کر اپنے امتحانات کیلیے عدالت جانا قابل تشویش عمل ہے ہم طالبعلموں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہم کبھی بھی تعلیمی سرگرمیوں کے خلاف نہیں رہے ہیں اور نہ ہی آج ہیں. اس احتجاجی عمل میں آپ سبھی کا ساتھ رہا ہے جو کہ قابل تحسین عمل ہے جس کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان لاپتہ طالبعلموں کے خاندانوں کیلیے بھی سبھی طلبا ایک امید بنے رہے ہیں.
ہم اس امید کے ساتھ طلبا سے ایک بار پھر اپیل کرتے ہیں کہ وہ دو طالبعلموں کی زندگیوں کا فیصلہ کسی عدالت کے ہاتھ میں جانے نہ دیں بلکہ احتجاجی عمل کا حصہ بنیں تاکہ لاپتہ طالبعلم باحفاظت واپس اپنے خاندان سے آملیں اور آپ ہی کے ساتھ اپنے کلاسز لے سکیں.