Homeخبریںعالمی دنیا اور انسانی ضمیر سندھ و بلوچستان میں جبری گمشدگیوں و...

عالمی دنیا اور انسانی ضمیر سندھ و بلوچستان میں جبری گمشدگیوں و انسانی حقوق کی پامالیوں پر خاموشی ختم کرے: سورٹھ لوہار

کراچی (ہمگام نیوز) وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ، سندھ سجاگی فورم، عوامی ورکرز پارٹی، ورکرز رززٹنس، نوجوان اتحاد، سول سوسائٹی اور لاپتا افراد کے لواحقین کی جانب سے آج شہباز بلڈنگ ٹھنڈی سڑک سے پریس کلب حیدرآباد تک پاکستانی ایجنسیوں کے ہاتھوں جبری اغواء کیے گئے سندھ سجاگی فورم کے رہنما ایڈوکیٹ محب آزادی سمیت سندھ بھر سے جبری اغواء افراد کی بازیابی کیلئے ’مسنگ پرسنز آزادی مارچ‘ کیا گیا۔

مارچ کی رہنمائی سندھ سجاگی فورم کے جوائنٹ سیکریٹری سارنگ جویو، وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کی رہنما سہنی جویو، عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما بخشل تھلھو، ورکرز رززٹنس کے رہنما مسرور شاہ، نوجوان اتحاد کے رہنما امجد رند، نامور سندھی ادیب تاج جویو اور سول سوسائٹی رہنما امداد چانڈیوو دیگر نے کی۔

جس احتجاجی مارچ میں جیئے سندھ قومی پارٹی کے رہنما ہالار رتڑ، سماجی رہنما سوجھرو سندھی سمیت سندھ کی تمام سیاسی، سماجی، انسانی حقوق کی تنظیموں، قوم پرست کارکنان، مقامی دیہاتوں کے کسانوں و مزدوروں، خواتین و بچوں سمیت جبری اغواء افراد کے لواحقین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

مظاہرے کے موقعے پر رہنماؤں نے احتجاجی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی ایجنسیوں کے ہاتھوں سندھ بھر میں جبری گمشدگیوں کا تیز ہونے والا یہ سلسلہ بتا رہا ہے کہ اس ریاست کے اصل ’کرتا دھرتا‘ ریاست کا سیاسی استحکام قائم رکھنا نہیں چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سندھ اور بلوچستان میں وہی پریکٹس دُہرا رہے ہیں جو انہوں نے آج سے چار دہائی قبل بنگلادیش میں آزمائی تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سندھی ایک پرامن قوم ہے، لیکن ریاستی ہتھکنڈے سندھ میں بھی مذہبی و لسانی گروہوں کی سرپرستی کرکے سندھ جیسی پرامن سرزمین کو نسلی و لسانی گروہوں کی ایک نا ختم ہونے والی خانہ جنگی کے طرف دھکیل دینا چاہتے ہیں جس کی واضح مثال گزشتہ روز کراچی پریس کلب کے سامنے سندھی و بلوچ جبری اغواء افراد کے مسنگ پرسنز کیمپ پر ریاست کی آشیرواد یافتہ انتہا پسند تنظیم ’سپاہِ صحابہ‘ کا کروایا گیا حملہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس حملے کی نہ صرف ہم مذمت کرتے ہیں بلکہ سندھی عوام کو آنے والے تمام ممکنہ ریاستی لسانی و فرقہ وارانہ خانہ جنگی کے خطرات سے بھی آگاہ و ہوشیار کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم دنیا کے عالمی اداروں و انسانی حقوق کی تنظیموں کو سندھ میں ریاستی سرپرستی کے سائے میں پلنے والی ایسے مذہبی انتہا پسند گروہوں پر نوٹس لینے کی اپیل کرتے ہیں جو گروہ سندھ کے تاریخی طور پر پرامن، سیکیولر اور مذہبی روادار سماج پر حملہ کرکے سندھ کی تاریخی شناخت و قومی وجود کو ملیا میٹ کردینا چاہتے ہیں۔

اس موقع پر رہنماؤں نے مزید کہا کہ سندھ بھر سے سو سے زائد سندھی قوم پرست کارکنان کو پاکستانی ایجنسیوں نے جبری طور اٹھا کر اغواء کردیا ہے، جس میں نہ صرف 16 سالہ بشیر شر اور عاقب چھانڈیو جیسے نو عمر کمسن بچے شامل ہیں بلکہ 80 سالہ بزرگ سید بچل شاہ سمیت سندھ ہائی کورٹ کے وکیل ایڈوکیٹ محب آزاد لغاری، 60 سالہ استاد شادی خان سومرو، 59 سالہ سندھ پبلک ورکس ڈپارٹمینٹ کا ملازم ایوب کاندھڑو، پٹھان خان زہرانی، امتیاز خاصخیلی، ریاض خاصخیلی، امداد شاہ، انصاف دایو، مرتضیٰ جونیجو، شاہد جونیجو، ستار ہکڑو، مسعودشاہ، مرتضیٰ سولنگی، نسیم بلوچ اور مہران میرانی سمیت سیکڑوں سندھی کارکنان شامل ہیں۔

ان سب کی آزادی کے لیئے ہم اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، سپریم کورٹ اور انسانی حقوق کی تمام تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مسنگ پرسنز کی آزادی کے لیئے اپنا عملی کردار ادا کریں۔

دوسری جانب وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کی سربراہ سورٹھ لوہار نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ عالمی دنیا اور انسانی ضمیر سندھ و بلوچستان میں جبری گمشدگیوں وانسانی حقوق کی پامالیوں پر خاموشی ختم کرے کیونکہ ہمارے پاس آواز اٹھانے اور احتجاج کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ ہی نہیں ہے جس کے ذریعے ہم مسنگ پرسنز کو واپس کروا سکیں۔

ایڈوکیٹ محب آزاد لغاری سمیت سندھ بھر سے جبری طور پر اغواء کیے گئے تمام کارکنان کی آزادی کیلئے آج حیدرآباد میں کیے گئے ‘مسنگ پرسنز آزادی مارچ‘ کے بعد اب لاڑکانہ، سکھر، میرپور خاص اور کراچی میں بھی ’مسنگ پرسنز آزادی مارچ‘ نکالیں گے۔

 

Exit mobile version