واشنگٹن( ہمگام نیوز ) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس نے اتوار کو ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے رہ نماؤں نے ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
فون کال کے دوران جس میں زیادہ تر یوکرین پر توجہ مرکوز کی گئی تھی، وائٹ ہاؤس نے مزید کہا “انہوں نے ایران کے جوہری پروگرام پر مزید بات چیت کی‘۔
ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے جاری مذاکرات، مشرق وسطیٰ میں شراکت داروں کے لیے تعاون بڑھانے کی ضرورت اور ایران کی غیر مستحکم علاقائی سرگرمیوں کو روکنے اور محدود کرنے کے لیے مشترکہ کوششوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
وائٹ ہاؤس نے امریکی صدر جو بائیڈن، برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن، فرانسیسی صدر عمانویل میکرون اور جرمن چانسلر اولاف شولز کے درمیان ہونے والی بات چیت کے مشرق وسطیٰ کے حصے کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
یورپی یونین اور امریکا نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ ایران کے ردعمل کا مطالعہ کر رہے ہیں جسے بلاک نے معاہدے کو بحال کرنے کی اپنی “حتمی” تجویز قرار دیا۔ اس کے تحت تہران نے اقتصادی پابندیوں سے نجات کے بدلے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر حامی بھری ہے۔
جوہری مذاکرات میں ناکامی سے ایک نئی علاقائی جنگ کا خطرہ بڑھ جائے گا، کیونکہ اسرائیل نے دھمکی دی ہے کہ اگر سفارت کاری ایران کو جوہری ہتھیاروں کی صلاحیتوں کو تیار کرنے سے روکنے میں ناکام رہی تو اس کے خلاف فوجی کارروائی کرے گا۔
تہران طویل عرصے سے جوہری ہتھیاروں کے حصول کے عزائم سے انکاری رہا ہے نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے حملہ کیا تو صہیونی ریاست کو کچل کر رکھ دیاجائےگا۔
سنہ 2018 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے عہدہ سنبھالنے سے پہلے طے پانے والے جوہری معاہدے سے یہ کہتے ہوئے دستبرداری اختیار کر لی کہ پابندیاں ہٹانے ایران کو غیرمعمولی فائدہ پہنچ رہا ہے اور وہ اپنی جوہری سرگرمیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ٹرمپ نے ایران پر مزید سخت اقتصادی پابندی عاید کیں جس کے جواب میں ایران نے جوہری سرگرمیاں تیز کردی تھیں۔