ہمگام اداریہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نامی تنظیم گذشتہ پانچ سال سے زائد عرصے سے ان بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے پر امن جدوجہد کررہی ہے جنہیں پاکستانی خفیہ اداروں نے اغواء کرکے گمنام اذیت خانوں میں منتقل کرکے لاپتہ کردیا ہے ۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے اعدادو شمار کے مطابق ایسے لاپتہ بلوچوں کی تعداد 18000 سے تجاوز کرچکی ہے اور ان لاپتہ افراد میں سے 1600 سے زائد کی تشدد زدہ مسخ شدہ لاشیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں سے 169 محض بلوچستان کے علاقے توتک کے اجتماعی قبروں سے ملی تھی جہاں پاکستان ایجنسیوں اور انکے بنائے گئے جرائم پیشہ افراد کے ڈیتھ اسکواڈ کا ایک اذیت گاہ قائم تھا ۔وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ ہیں جن کے چچا 14 سال سے غائب ہیں وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کے اپنے فرزند جلیل ریکی کی لاش 2011 میں دو سالہ گمشدگی کے بعد مسخ شدہ حالت میں ملی تھی ۔ فرزانہ مجید بلوچ اس تنظیم کے سیکریٹری جنرل ہیں جو اپنے بھائی اور بی ایس او کے سابق وائس چیئرمین ذاکر مجید بلوچ کی بڑی بہن ہیں ، ذاکر مجید بلوچ کو 2009 میں مستونگ کے مقام پر پاکستانی خفیہ اداروں نے اغواء کیا تھا ۔ وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز در حقیقت لاپتہ بلوچوں کے لواحقین کی تنظیم ہے جو پر امن ذرائع استعمال کرتے ہوئے اپنے پیاروں کے بازیابی کیلئے احتجاج کررہے ہیں ۔ یوں تو وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز گذشتہ پانچ سال سے زائد عرصے سے متحرک ہے اور مختلف پریس کلبوں کے سامنے انکے علامتی بھوک ہڑتال کو تادم تحریر 1912 دن گذرچکے ہیں لیکن انہیں عالمی طور پر اس وقت پہچان حاصل ہوئی جب تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ اور سیکریٹری جنرل فرزانہ مجید بلوچ نے بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ سے لیکر اسلام آباد تک براستہ کراچی 3000 کلومیٹر کا سفر پیدل احتجاجاً طے کیا تھا ۔ اس لانگ مارچ میں مختلف لاپتہ بلوچوں کے لواحقین نے شرکت کی تھی ۔اس طویل ترین لانگ مارچ جس کی بازگشت عالمی میڈیا میں تواتر کے ساتھ رہی اسلام آباد پہنچنے کے باوجود پاکستانی خفیہ اداروں کی طرف سے توجہ حاصل نہ کرسکا اور ایک بھی لاپتہ بلوچ کو رہا نہیں کیاگیا بلکہ اسکے بعد مسخ شدہ لاشوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا ۔ ماما قدیر بلوچ اور فرزانہ مجید اسکے باوجود ہمت نہیں ہارے ہیں اور اب وہ جنیوا تک لانگ مارچ کرنا چاہتے ہیں ۔ لاپتہ بلوچوں کے مسئلے کو اجاگر کرنے کیلئے وائس فار بلوچ مسنگ ایک طرف طویل علامتی بھوک ہڑتال میں بیٹھے ہوئے ہیں تو دوسری طرف سے وہ تواتر کے ساتھ مختلف سیمینار بھی منعقد کررہے ہیں اور سول سوسائٹی کی جانب سے منعقد سیمیناروں میں شرکت کرکے بلوچستان میں ہونے والے انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں اور بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تعداد میں روز افزوں اضافے پر اپنے خدشات دنیا تک پہنچاتے رہتے ہیں ۔ اسی ضمن میں مذکورہ تنظیم بارہا عالمی اداروں سے مداخلت کی اپیل کرتا رہا ہے ۔ حال ہی میں ماما قدیر بلوچ اور فرزانہ مجید بلوچ کو سندھی کلچرل و اکیڈمک سوسائٹی کے دعوت پر امریکہ ایک سیمینار میں شرکت کرنے جانا تھا۔ سیمینار پاکستان میں ہونے والے انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے بارے میں تھا جس کا انعقاد سندھی کلچرل و اکیڈمک سوسائٹی نے کیا تھا ۔ اسی ضمن میں امریکی سفارت خانہ ماما قدیر بلوچ اور فرزانہ مجید کو ویزہ جاری کرچکا تھا لیکن جب وہ روانگی کیلئے کراچی کے جناح ایئر پورٹ پر پہنچے تو انہیں پاکستانی امیگریشن ادارے ایف آئی اے نے روک لیا اور تین گھنٹے تک ایک کمرے میں بند کرکے مختلف سوالات پوچھ کر شدید زدوکوب کیا گیا اور کہا گیا کہ وہ بیرون ملک سفر نہیں کرسکتے کیونکہ انکے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہیں ۔ ماما قدیر بلوچ کے مطابق جب وہ فرزانہ مجید اور ایک اور لاپتہ بلوچ کے خاندان میں سے ایک فائقہ کے ساتھ جناح ٹرمینل کراچی پہنچے تاکہ امریکہ کیلئے روانہ ہوسکے تو انہیں ایف آئی اے کاوئنٹر پر روک لیا گیا، انہیں ایک کمرے میں لیجایا گیا اور انکا سارا سامان ، کاغذات اور پاسپورٹ وغیرہ دیکھے گئے انہیں فوٹو کاپی کیا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ وہ پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث تھے اس لیئے ان کا نام ای سی ایل میں شامل کیا گیا ہے ماما نے مزید کہا کہ انہیں تب چھوڑا گیا جب انکی فلائٹ روانہ ہوگئی ماما قدیر کے مطابق اگر ان کے نام ای سی ایل میں تھے تو انہیں وزارت داخلہ پہلے بتا دیتا وہ اتنا خرچہ نہیں کرتے اب ماما قدیر بلوچ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ ای سی ایل میں نام ڈالنے کے خلاف عدالت میں مقدمہ لڑیں گے ۔ اس واقعے کی ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستا ن سمیت مختلف انسانی حقوق کے اداروں نے شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ماما قدیر اور فرزانہ مجید بلوچ پر امن انسانی حقوق کے کارکن ہیں انکا نام ای سی ایل میں شامل کرنا بلا جواز ہے ۔ بلوچ آزادی پسند حلقوں کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ پاکستان گذشتہ ایک طویل عرصے سے بلوچستان میں بدترین انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں میں ملوث ہے اور اپنے گہناونے چہرے کو چھپانے کیلئے قابض پاکستان نے بلوچستان کو میڈیا خاص طور پر عالمی میڈیا اور صحافیوں کیلئے نو گو ایریا بنایا ہوا ہے ، پاکستانی خفیہ اداروں کا مقصد بلوچستان میں اپنے کیئے گئے انسانی حقوق کے جرائم کو چھپانا ہے ۔ اب ماما قدیر بلوچ اور فرزانہ مجید بلوچ کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا سب بڑا وجہ بھی یہی ہے کہ پاکستان خفیہ ادارے نہیں چاہتے کہ کوئی بھی انسانی حقوق کا بلوچ کارکن بیرون ملک جاکر پاکستان کے مکروہ چہرے کو دنیا کے سامنے فاش کردے ۔ انہوں نے عالمی اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ مختلف کمیشن تشکیل دیکر بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کا نوٹس لیں اور خاص طور پر لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کے بحفاظت بازیابی میں اپنا کردار ادا کریں اور ماما قدیر بلوچ و فرزانہ مجید بلوچ کے سفری بندش کے خلاف پاکستان سے احتجاج کریں ۔