دمشق(ہمگام نیوز) شامی دارلحکومت دمشق کے جنوب میں واقع فلسطینیوں کے مہاجر کیمپ یرموک کے بڑے حصے کو جمعرات کے روز شامی اپوزیشن اور فلسطینیوں نے انتہا پسند تنظیم دولت اسلامیہ ‘داعش’ کے قبضے سے آزاد کرا لیا ہے- داعش کے مسلح جنگجوٶں نے بدھ کے روز یرموک کیمپ پر دھاوا بول کر اس کے متعدد حصوں پر قبضہ کر لیا تھا-
انسانی حقوق کے مانیڑنگ گروپ نے بتایا ‘کہ مسلح گروپوں نے یرموک کیمپ کے وہ تمام علاقے آزاد کرا لئے ہیں جن پر انتہا پسند تنظیم داعش نے قبضہ کر لیا تھا-
بدھ کے روز انتہا پسند تنظیم کے ارکان کی جانب سے کیمپ پر ہلہ بولنے کے بعد سے یرموک کے علاقے میں موجود ہزاروں باسی خوفزدہ ہو گئے تھے- وہ اس بات پر حیران تھے کہ داعش کیسے دارلحکومت کے اتنا قریب پہنچنے میں کامیاب ہوئی- اس گھمیبر صورتحال کا احساس کرتے ہوئے فلسطینی تنظیموں نے مقامی مسلح اپوزیشن کے ساتھ ملکر جوابی کارروائی کا آغاز کیا اور چوبیس گھنٹوں سے پہلے کیمپ کو داعش کے چنگل سے آزاد کرا لیا-
انسانی حقوق آبزرویٹری کے ڈائریکٹر رامی عبدالرحمان نے بتایا کہ ‘شامی اپوزیشن کے جنگجوٶں نے کیمپ میں داخل ہو کر فلسطینیوں کی مدد کی- انہوں نے داعش کے ساتھ جھڑپوں کے بعد کیمپ کا کنڑول حاصل کر لیا-‘
دمشق میں تنظیم آزادی فلسطین [پی ایل او] کے سیاسی سرکل کے سربراہ انور عبدالھادی نے بتایا کہ داعش کو یرموک کیمپ کے باہر ہی روک لیا گیا تھا- ان کا مزید کہنا تھا کہ حماس کی ذیلی تنظیم اکناف بیت المقدس کے کارکنوں کی بدھ اور جمعرات کی شب داعش کے جنگجوٶں سے مڈبھڑ ہوئی جس میں چھے افراد ہلاک اور 17 دوسرے زخمی ہوئے-
لندن میں قائم آبزرویٹری کا مزید کہنا تھا کہ شدت پسند داعش اب بھی یرموک کیمپ کے بعض علاقوں پر قابض ہے- غیر سرکاری انجمن نے حملے میں مارے جانے والوں کی تعداد تین بتائی ہے-
ادھر اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے ریلیف اینڈ ورکس [انروا] نے کیمپ میں موجود عام فلسطینی شہریوں کی سلامتی کے بارے میں گہری تشویش کا اظہار کیا ہے- انروا کے ترجمان کریس گائینس نے بتایا کہ کیمپ میں بسنے والے اٹھارہ ہزار نفوس میں 3500 صرف بچے ہیں- پرتشدد جھڑپوں سے کیمپ میں مقیم بچوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہونے کا اندیشہ ہے-
دمشق سے چھے کلومیڑ کی مسافت پر قائم یرموک کیمپ بشار الاسد حکومت کے شدید محاصرے کی وجہ سے پہلے ہی ادویہ سمیت غذائی مواد کی قلت کا شکار ہے- اس محاصرے اور ابتر صورتحال کے پیش نظر ابتک کیمپ میں 200 فلسطینی مہاجر ابدی نیند سو چکے ہیں- تنازع کے آغاز کے بعد یہاں پر مقیم ایک لاکھ ساٹھ ہزار فلسطینیوں میں سے اب صرف اٹھارہ ہزار باقی بچے ہیں-