رپورٹ: عبیداللہ
واشنگٹن امریکی صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان دو ریاستی حل کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ میں یہ بات اسرائیل کے تاحیات حامی کے طور پر کہتا ہوں، انہوں کوئی دوسرا راستہ نہیں جو اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کی ضمانت دیتا ہو۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو حماس کا پیچھا کرنے کا حق حاصل ہے، اور حماس آج ہی تنازع کو ختم کر سکتی ہے اگر وہ یرغمالیوں کو رہا کر دے اور اپنے ہتھیار ڈال دے۔
بائیڈن کی یہ تقریر قاہرہ مذاکرات کے اختتام کو پہنچنے کے بعد سامنے آئی ہے۔ کانگریس سے اپنے آخری اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کے دوران بائیڈن نے اشارہ دیا کہ وہ غزہ میں فوری جنگ بندی تک پہنچنے کے لیے انتھک محنت کرتے رہیں گے اور مطالبہ کیا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان “فوری طور پر چھ ہفتے کی جنگ بندی کی جائے۔
بائیڈن نے اسرائیل کو پیغام دیتے ہوے کہا کہ “میں اسرائیل کے رہنماؤں سے کہتا ہوں کہ معصوم جانوں کا تحفظ اولین ترجیح ہونی چاہیے،” جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے جنگ بندی کے لیے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک حماس ختم نہیں ہوگی جنگ جاری رہے گی۔
بائیڈن نے امریکی فوج کو امداد فراہم کرنے کے لیے غزہ میں ایک عارضی بندرگاہ قائم کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ اس پٹی تک سمندری راستے سے زیادہ انسانی امداد پہنچائی جا سکے اور اس عارضی گودی سے خوراک، پانی، ادویات اور عارضی پناہ گاہیں لے جانے والے بڑے بحری جہاز لنگر ہوسکیں۔ انہوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ انسانی امداد کو دباؤ کے کارڈ کے طور پر استعمال نہ کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلیوں کو اس منصوبے کے بارے میں آگاہ کر دیا گیا ہے اور امریکہ ان کے ساتھ مل کر سکیورٹی کی ضروریات پر کام کرے گا۔
بائیڈن نے کہا کہ امریکی افواج غزہ کی پٹی میں زمین پر تعینات نہیں ہوں گی بندرگاہ پر تعینات رہیں گے۔ تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ غزہ میں زمین پر امریکی فوجی اہلکاروں کی عدم موجودگی میں بندرگاہ سے کیسے کام کرے گی۔ تاہم امریکی انتظامیہ کے حکام نے پہلے عندیہ دیا تھا کہ امدادی منصوبوں پر عمل درآمد کرانے کیلئے اقوام متحدہ اور امدادی تنظیموں کے علاوہ “شراکت دار اور اتحادی” بھی شرکت کریں گے. انہوں نے وضاحت کی کہ اس منصوبے میں “ساحل سے دور فوجی بحری جہازوں پر امریکی فوجی اہلکاروں کی موجودگی شامل ہے۔
مصری دارالحکومت قاہرہ میں مصر، قطر اور امریکہ کی ثالثی میں غزہ میں جنگ بندی پر مشاورت کے دوران مذاکرات کاروں نے اگلے ہفتے شروع ہونے والے ماہ رمضان سے پہلے 40 روزہ جنگ بندی تک پہنچنے کی کوشش کی۔ جبکہ اسرائیل نے کانفرنس میں شرکت کے لیے اپنا کوئی وفد قاہرہ نہیں بھیجا تھا۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فریقین کا انتک یہی کوشش ہے کہ رمضان سے پہلے فائر بندی کی کوششیں کامیاب ہوں۔ اور حماس کا وفد مصری، قطری اور امریکی ثالثی میں غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے مشاورت کے بعد مصری دارالحکومت سے روانہ ہوا ہے۔
گیند اب امریکیوں کے کورٹ میں ہے۔
حماس کو پیش کیے گئے معاہدے کے مطابق 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملے میں یرغمال بنائے گئے کچھ یرغمالیوں کو رہا کرے، اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کی تعداد 253 ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ یرغمالیوں کا کوئی بھی تبادلہ جنگ بندی کے بعد ہی ہو سکتا ہے اسرائیل صرف غزہ سے یرغمالیوں کو نکالنے کے لیے لڑائی روکنا چاہتا ہے، حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیل حماس کو ختم کرنے سے پہلے تنازع ختم نہیں کرے گا۔
حماس کے ایک سینیئر رہنما باسم نعیم نے کہا کہ تحریک نے جنگ بندی کے معاہدے کی اپنی تجویز ثالثوں کو پیش کر دی ہے اور اب وہ اسرائیلیوں کے جواب کا انتظار کر رہی ہے انہوں نے مزید کہا کہ “بال اب امریکیوں کے کورٹ میں ہے۔”۔