کوئٹہ ( ہمگام نیوز ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے فورسز کی بربریت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آپریشنوں ، اغوا و قتل کا سلسلہ روز بہ روز شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ سرکاری نمائندے اور میڈیا کچھ اغوا شدگان کی تعداد کا اعتراف کرنے کے باوجود ابھی تک کسی کا نام و جگہ ظاہر نہیں کر رہے ہیں۔ جو تمام انسانی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ آج صبح بلیدہ کے علاقے الندور زیردان میں ایک گھر پر حملہ کرکے فورسز نے ایک دس سالہ بچی فاطمہ بنت خالد، امیر بخش ولد داد رحمان اور رشید ولد گہرام کو شہید کیا۔ خواتین اور بچوں پر تشدد کی اور کئی افراد کو اغوا کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔ ریاستی مظالم کا یہ سلسلہ بلوچستان کے طول و عرض میں جاری ہے۔ ڈیرہ بگٹی کھٹن اور نصیر آباد چھتر میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کی بمباری سے پانچ نہتے بلوچ فرزندوں کو شہید کیا گیااور ایک درجن سے زائد اغوا کئے گئے۔ اسی طرح کل تمپ سے پانچ، کوئٹہ سے تین، گومازئی اور پنجگور گرمکان سے ایک ایک بلوچ فرزند کو اغوا کرکے لاپتہ کیا گیا ہے۔ گزشتہ سال کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دس ہزار بلوچوں کواغوا کیا گیاہے، جب کہ اصل تعداد اس سے زیادہ ہے۔ اس طرح گزشتہ پندرہ سالوں میں لاپتہ کئے گئے بلوچ فرزندوں کی تعداد پچیس ہزار سے زائد ہوگئی ہے۔ آج ضلع کیچ کے تحصیل بلیدہ میں الندوز زیردان میں جس سفاکانہ طریقے سے فورسز نے حملہ کرکے دس سالہ بچی کو شہید کیا، اس کی مثال کہیں نہیں ملتی، مگر مقامی و بین الاقوامی میڈیااور انسانی حقوق کے ادارے مسلسل خاموشی اختیار کرکے فوسز کی جرائم میں حصہ دار بن گئے ہیں۔ یہ تاریخ کا المناک باب ہے۔بلوچستان میں انسانیت سوز مظالم کو دیکھتے ہوئے بھی صحافی اور انسانی حقوق کے علمبردار دانستہ چشم پوشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔یا وہ خود ریاست کی بربریت سے خوف کا شکار ہو چکے ہیں۔ایسے میں اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ مگر ایسا محسوس ہورہاہے کہ شدت پسندی کی پالیسی کے سامنے دنیا بے بس یا بلیک میل ہو کر اب بھی فورسزکے ساتھ ہر قسم کا تعاون کر رہے ہیں۔ طالبان کے خلاف جنگ کے نام پر پیسے بٹور کر بلوچوں کی نسل کشی میں استعمال کی جارہی ہیں۔ جبکہ طالبان اور خفیہ ایجنسیز کے پالے ہوئے انتہا پسند سرعام اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔