ہمگام نیوز۔ امریکہ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ’سینٹر فار انکوائری‘ کا کہنا ہے کہ ایوارڈ یافتہ بنگلہ دیشی مصنفہ اور انسانی حقوق کی کارکن تسلیمہ نسرین قتل کی دھمکیاں ملنے کے بعد بھارت سے امریکہ منتقل ہو گئی ہیں۔
تنظیم کے مطابق تسلیمہ نسرین کا نام القاعدہ کے نشانے پر موجود افراد کی فہرست میں شامل ہے۔
تنظیم کا مزید کہنا ہے کہ تسلیمہ نسرین کو انہی لوگوں نے بالخصوص طور پر فوری نشانہ ظاہر کیا ہے جنھوں نے اس سال بنگلہ دیش میں تین دیگر بلاگروں کو قتل کر دیا تھا۔ ادھر مصنفہ نے خود حال ہی میں ٹویٹ کیا تھا کہ وہ بھارت میں محفوظ نہیں ہیں۔
انھوں نے کہا تھا ’بنگلہ دیش میں لادین بلاگروں کو مارنے والے اسلام پسندوں سے دھمکیاں ملی ہیں۔ پریشان ہوں۔‘
اس کے علاوہ انھوں نے کہا تھا کہ ’بھارتی حکومت سے ملنا چاہتی تھی لیکن ملاقات کا وقت نہیں ملا۔ چلی گئی۔ جب محفوظ محسوس کروں گی تو لوٹ آؤں گی۔‘
خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی اور قدامت پسند اسلام پر شدید تنقید کرنے والی 52 سالہ تسلیمہ نسرین کو 1994 میں شدت پسند مسلمان تنظیموں سے دھمکیاں ملنے کے بعد بنگلہ دیش چھوڑنا پڑا تھا۔
انھیں ایک دہائی تک یورپ اور امریکہ میں رہنا پڑا تھا جس کے بعد 2004 میں بھارت نے انھیں عبوری رہائش کی اجازت دے دی تھی۔
سینٹر فار انکوائری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انھوں نے تسلیمہ نسرین کی جان کو خطرے کے پیشِ نظر ان کو امریکہ منتقل ہونے میں مدد کی۔
گذشتہ ماہ اناتا بجوے نامی بلاگر کو بنگلہ دیش کے شمالی شہر سلہٹ میں سرِعام قتل کر دیا گیا تھا۔ سینٹر فار انکوائری کا کہنا ہے کہ قتل کی دھمکیوں کے پیشِ نظر دیگر مصنفوں اور انسانی حقوق کے کارکنان نے بھی ان سے رابطے کیے ہیں۔
پچھلی دو دہائیوں میں مختلف مذہبی گروہوں نے بھارت اور بنگلہ دیش میں تسلیمہ نسرین کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔ گذشتہ ماہ بنگلہ دیش کی حکومت نے ایک اور بلاگر کے قتل کیے جانے کے بعد انصار البنگلہ ٹیم نامی گروہ کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ ملک میں یہ چھٹا گروہ تھا جسے کالعدم قرار دیا گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ان تمام قتل کے واقعات میں حملہ آور کسی مصروف راہ داری پر واردات کرتے ہیں۔ سب سے پہلے فروری میں بنگلہ دیشی نژاد امریکی بلاگر اویجیت رائے کو دارالحکومت ڈھاکہ میں قتل کر دیا گیا تھا۔ مارچ میں ڈھاکہ میں ہی بلاگر وشیق الرحمان کو بھی مار دیا گیا تھا۔
چند سال قبل بنگلہ دیش میں قدامت پسند اسلامی تنظیموں نے ایسے بلاگروں کی موجودگی کے پیشِ نظر توہینِ مذہب کے قانون کا مطالبہ کیا تھا۔
اگرچہ سرکاری طور پر بنگلہ دیش سیکیولر ملک ہے تاہم 16 کروڑ میں سے 90 فیصد آبادی مسلمان ہے۔