تحریر: وارث بلوچ
بلوچ قومی درد کو محسوس کرنا ہوگا، برابر محسوس کرنا ہوگا، یہ تب ہوگا جب ہم گجر کے پندھے سے اور پنجابی کی گولی سے شہید ہونے والے بلوچ فرزندوں کو ایک نگاہ سے دیکھیں اور تہران و اسلام آباد کی ریاستی قبضہ، غاصبانہ عزائم کے لئے مل کر ایک ساتھ منظم و موثر آواز اٹھائیں۔
کوئی شہید ادنی یا اعلیٰ نہیں ہے، شہدا کے ساتھ انصاف کرنے کے لئے تیرا نومبر کا دن چنا گیا ہے، قطع نظر اس دن کے انتخاب کا عندیہ کس پارٹی یا لیڈر نے دیا تھا، ہمیں مل کر اپنی قومی رہنماوں، کارکنوں اور عوام کی عظیم اور بے بہا قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہیے، تاکہ یکجہتی، اور حقیقی معنوں میں مل کر دشمن کی قبضہ گیریت کا مقابلہ کیا جاسکے۔
ہمیں قومی سوچ کے تحت ایک ہی قومی بیرک کو تھامنا ہوگا۔ پارٹی جھنڈے کو قومی جھنڈے پر فوقیت دینے کی بجائے، ایک ہی جھنڈے کو جلسے، جلوسوں اور پارٹی پرگرامز میں اٹھانا ہوگا، متعارف کرانا ہوگا، تاکہ دنیا کو ایک متحدہ و مثبت پیغام پہنچایا جاسکے کہ بلوچ ایک قومی بیرک کے سائے تلے متحد ہیں لیکن بد قسمتی سے کچھ پارٹیوں کے سیاسی اور مزاحمتی تنظیموں کے جھنڈے الگ بنائے گئے ہیں۔
وہ بلوچستان کے جھنڈے کو اپنانے میں پس و پیش سے کام لیتے ہیں۔
اسی طرح جلاوطن بلوچوں کے مشکلات کو محسوس کرتے ہوئے ہمیں ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے، مہاجر چاہے، ڈیرہ بگٹی، کاہان، مکران، کوئٹہ، یا کسی بھی علاقے سے ہجرت کرتے افغانستان میں پنجابی ریاستی گماشتوں کے ہاتھوں شہید کئے جارہے یا کٹر گجر دہشت گرد فورسز کے ہاتھوں شہید ہوں، یا سوئیڈن ، کینیڈا میں آئی ایس آئی کے انڈرگراونڈ مافیا کے ہاتھوں شہید ہوں، ہمیں بحیثیت بلوچ سب کی تصاویر اٹھانی چاہے، سب کے لئے ایک ساتھ آواز اٹھانی چاہے، سب کے لئے سوشل میڈیا میں کیمپئن چلانی چاہیے اور سب کو شہید کا درجہ دے کر خراج عقیدت پیش کرنی چاہیے۔
یہی وہ قومی سوچ، مثبت رویے ہیں جو ہمیں حقیقی معنوں میں جوڑ سکتے ہیں، ورنہ کچھ لوگ تہران کی بوٹ پالش کرنے کو اپنا سیاسی حکمت عملی کہتے ہوئے، ایران کے ریاستی فورسز کی بلوچ نسل کشی پر مجرمانہ خاموش اختیار کیئے ہوئے ہیں۔
ایسا عمل بلوچ نیشنل ازم کی فکر کے ساتھ تضاد ہے۔
کچھ لوگ بلوچستان کی تاریخی قبضہ کو نظر انداز کرتے ہوئے، ستائیس مارچ کے دن بطور یوم قبضہ منانے سے گریز کرتے ہیں، کچھ لوگ مڈل کلاس کو موجودہ تحریک کا جاندار کردار اور دیگر آزادی پسند قبائلی جہد کار دوستوں کو ناقابل بھروسہ کہہ کر ان کے خلاف مہم چلاتے ہیں، ان کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے لئے انہیں آپس میں دست و گریبان کرکے، انہیں توڑ کر اپنے پارٹیوں میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں، اندرون خانہ پیسے کی ریل پیل سے انہیں لالچ دے کر اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں، بلوچ آزادی پسند سرکردہ رہنماوں کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ایجنٹ، فرسودہ، ضائدالمعیاد سیاسی لیڈر جیسے غیر سیاسی اصطلاحات کا استعمال کرکے ان کی کردار کشی سے باز نہیں آتے۔
بلوچ قومی تحریک آزادی کو تاریخ میں پہلی بار ایک انہوکا اور اہمیت کا حامل حیثیت حاصل ہے، اس وقت ہمیں اپنی قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں رکھنی چاہیے، ایران اور پاکستان کے مابین کوئی تفریق کئے بغیر ہمیں سیاہ کو سیاہ ، سفید کو سفید کہنا پڑیگا۔
اب وہ وقت نہیں رہا جہاں چند ایک گروہ ایرانی اداروں کی پراکسی بن کر ایرانی قبضے کے خلاف بیان بازی، جلسے جلوس، سے گریز کرکے یہ بہانا تراشتے تھے کہ ایران کے خلاف بات نہ کرنا ان کی حکمت عملی، تاریخ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اب ان کی یہ نام نہاد حکمت عملی ریت کی دیوار ثابت ہوئی ہے۔
لہذا انہیں قوم کے ساتھ اور اپنے کارکنوں کے ساتھ جھوٹ بولنے، عوام کو گمراہ کرنے کی اسے بطور سیاسی پالیسی اپنانے پر قوم سے معافی مانگنا چاہے اور اب کھل کر ایرانی و پاکستانی قبضہ گیرت کے خلاف بولنا، لکھنا اور دنیا کو آگاہ کرنا پڑیگا۔
تمام بلوچ شہدا اور مہاجرین کو چاہے وہ بگٹی قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں، افغانستان کے زیر دست بلوچ ہوں یا ساجد، عارف بارکزئی یا کریمہ بلوچ ہوں، سب کے لئے برابر موثر آواز اٹھانی چاہیے۔
اگر واقع کوئی یہ چاہتا ہےکہ اتحاد، یکجہتی کو منطقی انجام تک پہنچائے انہیں بنا کسی لگی لپٹی ایرانی فورسز کی جانب سے بلوچ نسل کشی، بلوچوں کی معاشی قتل عام کے خلاف اور ایران کی قبضہ کے خلاف کھل کر آواز اٹھانا پڑیگا تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ اب ہمارے درمیان یک نقاطی ایجنڈا موجود ہے۔
میرے ناقص رائے میں، ہمیں یک نقاطی ایجنڈے کی بجائے یک وطنی ایجنڈے پر متفق ہوناپڑیگا تاکہ ایران اور پاکستان جو ہماری سرزمین پر قابض ہیں اور ہمارے وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں تیزی لارہے ہیں ان کا راستہ روکنے کے لئے قومی سطح پر آواز بلند ہو، گولڈ اسمتھ لائن اور ڈیورنڈ لائن کے آر پار بلوچوں کو اتحاد، یکجہتی کی لڑی میں پرونے کا یہ عمدہ ترین موقع ہے۔ کوئی اگر اتحاد اور یکجتی کے لئے حقیقی معنوں میں سنجیدہ ہے تو انہیں پہلے ایران نواز پالیسوں کو طلاق دینا ہوگا تب جاکر بلوچ و بلوچستان کی عظیم تر مفاد میں ہم سب یکجا ہوسکتے ہیں۔