Homeآرٹیکلزقومی فوج بی ایل اے کیخلاف ریاستی حربے نئی بات نہیں۔ تحریر:...

قومی فوج بی ایل اے کیخلاف ریاستی حربے نئی بات نہیں۔ تحریر: قندیل بلوچ

مختلف اوقات میں ریاست پاکستان اپنے گماشتوں کے ذریعے بلوج راجی لشکر بی ایل اے کے خلاف اپنی ریشہ دوانیوں میں مصروف رہا ہے۔ ان حربوں سب سے بڑا حربہ بلوچ عوام کو راجی لشکر سے بد ظن کرنا ہے لیکن بلوچ عوام کی اپنی راجی لشکر سے والہانہ محبت نے کبھی ان ریاستی گماشتوں اور قابض فوج کے مذموم عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔

ایسا کیوں کیا جاتا ہے ۔۔۔؟اگر اس بات کو اچھے سے سمجھا جائے تو پتہ چلے گا کہ ریاست اپنی تمام تر لاؤلشکر اور عسکری وسائل کے باوجود بھی ایک منظم لشکر کو شکست نہیں دے سکتی لیکن اگر وہ مقبوضہ سرزمین کے عوام کو ہی کسی جد و جہد کرنے والے لشکر کے خلاف اور اپنی حمایت میں بدل سکی تو یہ چیز کسی بھی تحریک کی جڑوں تک کو ختم کرنے کے لئے کافی ہے۔عوام اور جد و جہد میں مصروف لشکر کے درمیان اعتماد کے رشتے کو اگر ٹھیس پہنچا تو پھر اس اعتماد کو بحال کرنے میں خاصی طویل مدت اور بے پناہ قربانیاں درکار ہونگیں۔

اسی لئے قابض ہمیشہ یہی چاہتا ہے کہ وہ کس طرح بلوچ عوام اور بلوچ راجی لشکر کے درمیان موجود اس اعتماد کی فضا کو پراگندہ کرسکے۔ ریاست اس کے لئے وسائل کی بے پناہ استعمال کرتا ہے، اپنے گماشتوں کو کئی طرح کے مراعات سے نوازتا ہے لیکن اپنی اس مذموم مقاصد میں کبھی کامیاب اس لئے نہیں ہوتا کہ وہ اپنی گماشتوں کے ذریعے جو بھی کرتا یا کہتا ہے تو چند دنوں کے اندر ہی جھوٹ کا پلندہ عوام کے سامنے کھل جاتا ہے اور ان پر حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔

ایسا ہی ایک مسئلہ ایک بار پھر سر اٹھارہا ہے جس میں خاران سے تعلق رکھنے والاایک بچہ ( قدرت اللہ ولد محمد اکبر ) کی شہادت سے متعلق ہے جس میں دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ بچہ بلوچ راجی لشکر کی ایک کارروائی کے نتیجے میں شہید ہوا ہے، ویسے اس میں بعید نہیں کہ جنگوں کے دوران کولیٹرل ڈمیج ہونا امکانات سے بالاتر نہیں ہوسکتا اور کئی دفعہ ایسی لغزشیں ہوبھی چکی ہیں اور اگر کوئی ایسی ناخواستہ نقصان اگر ہوبھی جائے تو بلوچ راجی لشکر کا یہ طریقہ کار رہا ہے کہ وہ اپنی طرف سے ہونے والی کسی بھی مبینہ نقصان پر اپنی تاسف اور غم کا نہ صرف اظہار کرتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ وہ اپنی اس انسانی لغزش کو کھلے بندوں قبولتے ہوئے غمزدہ خاندان سے اسکی معافی تلافی کا بھی خواستگار ہوتا ہے۔

لیکن کیا خاران میں شہید ہونے والے بچے کے اس سانحے کو ہم راجی لشکر کی طرف سے ہونے والی ایک ناخواستہ نقصان کہہ سکتے ہیں ؟یا پھر یہ محض ایک ایسی مذموم سازش ہے کہ جس کے ذریعے بلوچ راجی لشکر کو بدنام کرنا مقصود ہے تاکہ عوام اور راجی لشکر کے بیچ موجود اعتماد کی فضا کو ٹھیس پہچایا جاسکے۔

مقامی سطح پر معلوم کرنے کے بعد پتہ لگا کہ جہاں پر یہ واقعہ رونما ہوا ہے وہ جگہ قابض ایف سی کیمپ سے محض چند فٹ کے فاصلے پر ہے، جہاں پر ایف سی اور اسکے حمایتی گروہوں کے علاوہ کوئی بھی باآسانی داخل نہیں ہوسکتا اور ایسے میں دعویٰ کرنا کہ دستی بم سے ایک ایسے گھر پر حملہ کرکے وہاں موجود لوگوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے جو کہ ایف سی کیمپ سے متصل ہو ہرگز ہضم کرنے والی بات نہیں ہوگی بلکہ اس میں چند دوسرے عنصر کو بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ ایسا کیوں اور کس کی ایما پر کیا جارہا ہے؟

کیونکہ راجی لشکر جب کسی ہدف کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتا ہے تو ناکامی یا کامیابی دونوں صورتوں میں وہ اپنی اس بات کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے کہ انہوں کس کو ہدف بنایا تھا اور مقامی سطح پرجانچ کرنے کے بعد ایسی کوئی معلومات نہیں ملیں کہ اس گھر میں کوئی مبینہ ریاستی گماشتہ یا آلہ کار موجود تھا تو پھر یہ الزام ہی بیجا ہے کہ راجی لشکر نے اس گھر پر دستی بم سے حملہ کیا۔

ایسا محض اس لئے کیا جاتا ہے کہ قابض ریاستی قوتوں کی طرف سے اپنی تمام کوششوں کے باوجود وہ خاران کے علاقے میں بلوچ راجی لشکر کی موجودگی اور انکی قدموں کے چھاپ کو ختم نہیں کرسکے ہیں۔

لہذا اب وہ پرانی طریقوں پر ایک رد بیانیہ کائونٹر ناریٹیو پر اتر آئی کہ ان کو ( راجی لشکر) عوام کے درمیان بدنام اور مطمعون کیا جائے تاکہ عوام اور انکے درمیان موجود رشتے کو کمزور کرتے ہوئے علاقے سے انکی بیخ کنی کا عمل آسان بنایا جاسکے۔

یہ وہی ماضی کے نمک حلالی کے ٹوٹکے جنہیں قابض پاکستان کے گماشتے عرصے سے بلوچ راجی لشکر کے خلاف استعمال کرتے آرہے ہیں۔

بلوچستان جیسے مقبوضہ علاقے میں ایک طرف آزادی کی تحریک چل رہی ہو ،روز افزوں ریاستی اداروں کی طاقت ان سے چھینی جارہی ہو ۔دوسری طرف گمشدہ بلوچوں کی بازیابی کی صدا تاریخ میں بلند ترین سطح پر ہو تو ظاہر سی بات ہے شعیب نوشروانی جیسے ریاستی کاسہ لیس سے یہی توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ قابض ریاستی اداروں کے ساتھ ملکر کسی کا بلی چڑھا دیں۔

سو اس بار معصوم قدرت اللہ کی بلی چڑھا دی گئی ہے اور الزام راجی لشکر پر توپنے کی ناکام سی کوشش کی گئی ہے لیکن یہ بات سب کو معلوم ہے کہ راجی لشکر  (بی ایل اے) ایک تو اپنے لوگوں پر بلاوجہ حملے کرنے کی بھیانک تاریخ نہیں رکھتی اور دوسری طرف اگر کسی بلوچ کو اسکی گماشتگی کی سزا کے طور پر مار بھی دے تو وہ اسے قبولنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا اور پھر ایک معصوم بچے سے بھلا کیا دشمنی ہوسکتی ہے لیکن جیسا کہ پہلے بتایا ہے کہ عسکری کارروائیوں میں کولیٹرل ڈمیج کے امکانی عنصر کو کبھی بھی مکمل طور پر رد نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ اگر ایسا کوئی نقصان بادل ناخواستہ راجی لشکر کے ہاتھوں سرزد ہوبھی جائے تو بلوچ راجی لشکر کے صفوں میں یہ ہمت اور یہ ظرف موجود ہے کہ وہ اپنی اس کوتاہی اور لغزش کوببانگ دہل قبول کریں اور ماضی میں ایسا ہوا بھی کہ جہاں نہ چاہتے ہوئے بھی کوئی ایسا سانحہ رونما ہوبھی چکا ہو تو بی ایل اے اسکے لئے خود برملا زمہ دار ٹہرا چکی ہے۔

Exit mobile version