Homeآرٹیکلزماما میرا ساتھی، میندو میرا استاد۔ تحریر: مرید بلوچ

ماما میرا ساتھی، میندو میرا استاد۔ تحریر: مرید بلوچ

زندگی کے اس پر پیچ پر خطرو کٹھن سفر میں ویسے تو بہت سے مقام آتے ہیں جہاں پر انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ ختم ہوگیا ، جہاں زندگی اپنی معنی و افادیت کھو بیٹھتی ہے اور شعور و لاشعور کے خلاء میں مایوسی و نا امیدی کی چادر اوڑھے احساسات و جذبات کسی نوجوان بیوہ کی طرح درد کی دیواروں پر سرپٹکتے رہتے ہیں ان مقامات میں کچھ عارضی نوعیت کے ہوتے ہیں جہاں تھوڑی دیر ٹہرنے کے بعد انسان آگے عازم سفر ہوتا ہے جبکہ بعض ایسے ہوتے ہیں جو موت کی وادی تک انسان کو اپنے دام میں جھکڑے ہوئے سوچ و فکر اور حواس کو پوری طرح گرفت میں لئے ہوئے روح کی اتاہ گہرائیوں میں اپنے دائمی نقوش ثبت کردیتے ہیں ان سانحات ، واقعات اور المیوں کو لفظوں میں بیان کرنا ایک ناممکن سی چیز ہے انہیں صرف محسوس کیا جاسکتا ہے اور محسوس بھی صرف وہ کرسکتے ہیں جن پہ وہ لمحات گزرے ہیں یا وہ جو پہلے ہی اس مقام و کیفیت سے گزرے ہو۔ میرے دماغ و زہن پہ ایسی ہی بجلی اس وقت گری جب ہم قابض کی جارحیت و برریت کے خلاف اور قومی بقاءکے لئے کوہ بہ کوہ پھررہے تھے ، دنیا سے رابطہ برائے نام نہ کسی کی خیر نہ خبر، چند ساتھی، کچھ بکریاں اور ایک تنگ سی گھاٹی میں زندگی سے بہت بلند ایک اعلی و ارفع مقصد کی حصول کی خاطر شب و روز گزار رہے تھے کہ شہر سے کچھ اخبارات ہمارے پاس پہنچے جب میں نے اخبارات کے صفحے پلٹنے شروع کئے تو ایک اخبار کے فرنٹ پیج پر قابض افواج کی سٹیٹمنٹ لگی ہوئی دیکھی لکھا تھا ”زیارت ریزیڈنسی حملے کا ماسٹر مائینڈ محمود عر ف ماما میندو(رحمدل مری) ایک کاروائی میں ہلاک” اسٹیٹمنٹ کے نیچے ماما کی تصویر لگی ہوئی تھی سدا ہنستا مسکراتا ہوا مہروان ماما کچھ لمحوں کے لئے زندگی کی لیئے ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئی وقت کی رفتار تھم سی گئی ہر چیز ساکت و جامد ہونے لگی

کتنے طوفانوں کی حامل تھی لہو اک بوند
دل میں ایک لہر اٹھی ، آنکھ سے دریا برسا

یقین نہیں آرہا تھا کہ ماما ہم سے جسمانی طور پر جدا ہوگئے ہیں ، زہن نے قبولیت سے انکار کیا اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے جب میں نے ایک دوست سے تفصیلاً حا ل احوال کی تو معلوم ہوا کہ کس طرح بزدل دشمن مزدوروں کے بھیس میں ماما اور ساتھیوں پر حملہ آور ہوا اور کیسے بلوچ گلزمین کے فرزندوں نے آخری سانس تک مزاحمت کرتے ہوئے تاریخ میں جرات و بہادری کی ایک اور لازوال سی مثال چھوڑ گئے ۔

نہ رہے جنون رخ وفا، یہ رسن یہ دار کرو گے کیا
جنہیں جرم عشق پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے

دشمن کی مکارانہ و عیارانہ چالوں میں تیزی تحریک کی ضروریات ایک مضبوط و منظم ادارے کی تشکیل ، صبر آزماءاور مسلسل جدوجہد ، پیچیدہ مسائل اور ان حالات میں ماما جیسے راہشوں و رہبر کا بچھڑ جانا بلاشک و شبہ بلوچ جیسے بزگ و بے بس قوم کے لئے ایک المیہ سے کم نہیں ہے ۔ماما کے بارے میں کچھ لکھنا اور ان کے کردار کے ساتھ پورا پورا انصاف کرنا میرے اوقات اور بس سے باہر ہے شاید ہی کوئی ہو جو بلوچ قوم کے اس فرزند کے جہد و کردار کے ساتھ پوری طرح انصاف کرتے ہوئے ماما کی شخصیت ، ان کے ہونے یا نہ ہونے کی اثرات سے قوم کو واقف کرسکے ۔

کھویا ہے اسے جس کا بدل کوئی نہیں

مشکل ہے کہ میں ان نام نہاد دانشوروں اور ادیبوں کی طرح لفظوں کے خوبصورت موتی پروسکوں جن کے پاس احساس و خلوص سے عاری القابات و اعزازات کی بھر مار ہوتی ہیں جو کردار کی پستی میں پھنسے ہوئے بھی کردار کی عظمت و پاکیزگی کو یوں بیان کرتے ہیں جیسے وہ خود اسی درجہ مقام پر فائز ہو۔

جب میں یہ سطور لکھ رہا تھا تو ایک دوست نے پوچھا کہ کیا کررہے ہو میں نے کہا کہ ماما میندو کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں مگر کیا کروں جو میں لکھنا چاہتا ہوں کہنا چاہتا ہوں ویسے بیان نہیں کرپارہا جن جذبات و احساسات سے گزر رہا ہوں انہیں اسی طرح پیش کرنے سے قاصر ہوں خیالات و الفاظ کی بے ربطگی عود کرسامنے آرہی ہیں دل میں ایک ہی خوف ، ڈر کہ ماما جیسے سنگت کی شخصیت ، کردار، جہد و عمل کی اسی طرح بیان کرپاسکوں گا یا نہیں تو جواباً دوست نے کہا کہ جتنا بھی اور جیسے بھی لکھ سکتے ہو لکھو ہوسکتا ہے تمھارے سچے جذبات ور پر خلوص سادہ سے الفاظ ان گھاگ قسم کے روایتی دانشوروں کے فلسفیانہ تحریر وں سے بہتر ثابت ہو تب تھوڑی ہمت بندی اور لرزتے ہاتھ پھر قلم کی طرف بڑھے۔

ماما ایک مخلص ساتھی ، ماما ایک بہترین سپاہی ، ماما میرا استاد ، ماما میرا غم خوار ، ماما قربانی کے فلسفے سے بخوبی واقف تھا ۔ ماما ایک فرد نہیں بلکہ ماما اپنے اندر پاکیزہ سوچ و فکر سموئے ایک مکمل تحریک تھا استعماریت ، قبضہ گیریت کے خلاف مسلسل برسرپیکار ، ماما تو مادر چراغ آخر شب تک مسلسل روشنی پھیلاتے ہوئے صبح نو کی نوید تھا۔

مجھے اچھی طرح سے یاد ہے جب میں پہلی دفعہ ایک گشت کے موقع پر ماما اور باقی دوستوں سے ملا تھا ویسے تو تمام ساتھی مہر محبت اور خلوص میں ایک دوسرے سے آگے تھے مگر وہ ہنستے مسکراتے چہرے دل کی بنجر اور ویران زمین پر مہر و محبت کے پھول اگانے میں کامیاب ہوئے ایک سنگت ناصر مری جیسے پیارے سے تمام دوست ‘کاسترو’ کے نام سے پکارتے تھے دوسرا ماما میندو ۔ نیا ماحول نئے لوگ ہوس لالچ غرض زاتی مفادات کی دنیا سے کوسوں دور ایک نئی دنیا اور ایک نئی زندگی نئے ماحول میں ایک دو دن گزارنے اور ماما اور ناصر جان جیسے ساتھیوں کے ساتھ مجالس کے بعد ایسے لگا جیسے اس ماحول و زندگی کے ساتھ برسوں کی آشنائی ہو اور بولان کے خوبصورت وادیوں و چوٹیوں پہ کئی صدیوں سے ماما کا ہمسفر ہمگام رہا ہوں۔ بحیثیت ایک پر خلوص ، شفیق اور سرتا پا جسم مہر ماما کی شخصیت مجھے متاثر کرگیا مگر یہ تو ماما کی شخصیت کا صرف ایک پہلو تھا ابھی اور بھی منزلیں باقی تھی اس پر خطرہ پر خار اور کٹھن سفر میں عزم وحوصلے کے داستانیں تو آگے آنے کو تھے۔

ایک گشت کے دوران محاز پر لڑتے ہوئے ناصر مری کی شہادت والی رات وہ رات تھی جب میں نے ماما کو ایک مختلف روپ میں دیکھا کئی گھنٹوں کا پیدل سفر دشمن کے ساتھ جھڑپ بھوک پیاس اور تھکاوٹ سے نڈھال اور ایسے میں ایک مہروان دوست کی شہادت مجھ جیسا کم ہمت شخص تو پانی، روٹی اور کمین گاہ تک پہنچنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا جبکہ ماما میندو اور کچھ دوست جنگ جاہ تک جانے اور ناصر جان کی میت کو لانے کے لئے رضاکارانہ آگے بڑھے میت کو سنبھالنے اور ہمارے پاس پہنچانے کے بعد قافلہ کی اگلی منزل کمین گاہ تھی ۔ ناصر جان کی میت کو کندھا دیے ہوئے ماما اور باقی ساتھی آگے آگے چلتے جارہے تھے جبکہ شدید ذہنی و جسمانی تھکاوٹ ، کمزوری اور شرمندگی کے بوجھ تلے سب سے پیچھے ایک ایک قدم درد، پیاس اور کرب زدہ ، شرمندگی اس بات کی تھی کہ خوش فہمی و خود فریبی کے سراب میں زندگی کے 28سال گنوانے کے باوجود اپنے آپ کو بہادر، دلیر، پر حوصلہ، پر عزم اور نجانے کیا کیا سمجھتا تھا اور یہ سب پچھلے چند گھنٹوں میں ریت کے زروں کی طرح بکھر گئے ہر بڑھتا ہوا قدم انا و ذات کی فصیل کو توڑتا چلا گیا دماغ میں مختلف سوالات اٹھنے لگے کیا بہادری کی تعریف وہ ہے جو میں نے اپنے لئے بنائی تھی یا یہ مشکل و ناموافق حالات میں جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہنستے ہوئے آتش ِ نمرود میں کود جانا؟ کیا فیصلہ لینے کی طاقت اسے کہتے ہیں جب آپ کے پاس تمام تر وسائل موجود ہو اوپر سے لیکر نیچے تک ایک مضبوط کمانڈ اینڈ کنڑول سسٹم کے اندر لکیر کے فکیر بنتے ہوئے آزمائے ہوئے طریقوں پر عمل پیرا ہونا یا اسے کہ دوران دوستوں کے درمیان ایک لاش پڑی ہو بھیڑئے جیسا دشمن مسلسل دائرہ تنگ کرتے ہوئے آگے بڑھے اور انہی چند اعصاب شکن لمحات میں دشمن کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھی کی لاش کو بحفاظت نکال لینا ایک حوصلہ و جذبہ وہ ہے جب طاقت کے گھمنڈ اور کشش میں چھوٹی سی تنخواہ کے عوض مظلوموں اوربے کسوں پر گِدھوں کی طرح جھپٹا جائے یا یہ کہ ہزار مشکلات ومصائب سہہ کر بھی اف تک نہ کہتا اور بد سے بدترین صورتحال میں بھی ہنستے ہوئے اپنے مقصد کے لئے جان دے دینا۔کیا جنگی فنون میں مہارت صرف جنگی حکمت عملی جیسے کتابوں کو رٹا مارنے سے ہی حاصل ہوتاہے یا جنگی میدان میں لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال اور اس کے مطابق ماما جیسے ساتھیوں کا اپنے آپ کو ڈھالنے سے ۔

میں بھی اب خود سے ہوں جواب طلب
وہ مجھے بے سوال چھوڑ گیا

یہی وہ مقام تھا جب مجھے ماما جیسے ساتھیوں کی عظمت کا احساس ہوا اور ان کمانڈروں اور سپاہیوں کی اصلیت بھی آشکار ہوئی جو تمام تر وسائل ہونے کے باجود حوصلہ ، جرات مندی، دلیری، مخلصی اور بے غرض جیسے وصایف سے بے بیرہ و محروم تھے۔

ایک اور گشت کے دوران ماما اور ساتھی دشمن کی گھیرے میں آگئے تھے بزدل دشمن نے چوٹیوں پر قبضہ کیا ہوا تھا جبکہ دوست ایک نالے میں تھے دشمن کے آگ اگلتی ہوئی بندوقوں کا رخ گلزمین کے فرزندوں کی طرف تھا جنہوں نے ایک بہترین کل کے لئے اپنا جان قربان کردیا تھا ایک طرف بزدل دشمن اپنے تمام تر تیاریوں کے ساتھ اور ایک طرف ماما اور چند ساتھی ، دوران جھڑپ ماما زخمی ہوگئے ایک گولی ان کے دوربین میں لگی تھی دوسری سائیڈ والی جیب میں جبکہ تیسری ان کے ٹانگ میں ، خوش قسمتی سے ٹانگ والی گولی ہڈی کو نقصان پہنچائے بغیر نکل گئی تھی مگر ماما نے چھپنے اور پیچھے ہٹنے کے بجائے گھیرہ توڑنے کی کوششوں کو اور تیز کردیا چند گھنٹوں کے جھڑپ کے بعد دوست گھیرہ توڑنے میں کامیاب ہوکر رات گئے اوتاک پہنچے ماما نے عام دنوں کی طرح ہنستے ہوئے احوال دیا لگتا ہی نہیں تھا کہ ماما مسلسل 3,4گھنٹے دشمن کے ساتھ محاز آراء رہنے کے بعد موت کی دیوی کو چکما دے کر آیا ہو۔ عقل و ہو حیران رہ گئے کہ یا اللہ یہ بندہ کس مٹی سے بنا ہوا ہے جہاں اچھے سے اچھے جنگی کمانڈر/سپاہی کے پاﺅں ڈگمگانے لگے جہاں ہر طرف طرم خان اپنی دستار گراکے سربچانے کی فکر میں ہو جہاں فلسفہ، منطق، دلیل اپنی اہمیت کھو بیٹھے جہاں مہر محبت رشتے ناطے اور دوستیاں بے کارسی لگنے لگے جہاں بے یقینی و خوف عقل کو اپائج کردے اسی مقام و جاہ پر بھی ماما کے چہرے پر وہی ہنسی وہی مسکراہٹ و بے نیازی۔

ان اعصاب شکن و جنگ زدہ لمحات کے دوران جب کبھی فارغ وقت ملتا تو ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق ، شغل اور چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ نکل پڑتا مجھے وہ دن بھی اچھی طرح یاد ہے جب ماما کو چڑانے کے لئے میں میر احمد بلوچ کے ایک گانے کی پیروڈی کرتا تھا اور ان کے جگ(جھونپڑی) کے پاس آگے زور زور سے گانے لگتا ، “ماما میندو، ورنا میندو۔۔۔۔۔ پن اس تینکن اِلا میندو پھلا میندو” کے ساتھ گزرے ہوئے ڈیڈھ سال شاید وقت کے لحاظ سے مختصر سے عرصے میں میں نے ماما سے اتنا کچھ سیکھا شاید برسوں کی محنت و ریاضت سے سیکھ نہ پاتا، حوصلہ جذبہ، فیصلہ لینے کی طاقت ، ذ ہنی و جسمانی پختگی، قربان ہونے کاوصف، نیک نیتی، کمٹمنٹ ، جذبات پر قابو پانا ، بے غرضی، مخلصی، یکساں افکار و عمل یہ وہ روشنی کے دیئے تھے جو ماما جیسے ساتھیوں کی بدولت مجھ جیسے کم فہم ، کم علم اور ذات کے اندھیروں میں بھٹکنے والے جہدکاروں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوئے اور آگے آنے والے نوجوانوں کو بھی اندھیروں کی حکومت و حکمرانی ختم کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہونگے ۔

ماما جیسے مخلص ساتھی کا بے وقت بچھڑ جانے کا زہر قاتل سا احساس شاید انہیں نہ ہو جنہوں نے مادی آسائشوں کے منڈی زندگی کو گروی رکھا ہوا ہے یا انہیں جو اپنے ڈیڈھ انچ کی مسجد سجائے زاتی غرض، مفاد، لالچ و ہوس کے منبر پر بیٹھ کر بلند و بانگ دعوے و تقاریر کیا کرتے ہیں۔ البتہ وہ تمام لوگ جنہوں نے ماما کی قربت سے فیض پایا ہے مخلصی ، نیک نیتی اور بے غرضی جیسے آدرشوں کو آگے بڑھاتے ہوئے قبضہ گیریت و استعماریت کے خلاف تمام محازوں پر سرگرم عمل ہیں وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ماما جیسا بے غرض ساتھیوں کے بغیر اس کھٹن سفر کی منزلیں طے کرتے ہوئے آگے بڑھنا کسی قدردرد ناک و تکلیف دہ ثابت ہوگا۔

Exit mobile version