دوشنبه, سپتمبر 30, 2024
Homeآرٹیکلزمٹی پلیدی کا سلسلہ یونان سے بلوچستان تک :تحریر :میران بلوچ

مٹی پلیدی کا سلسلہ یونان سے بلوچستان تک :تحریر :میران بلوچ

سرڈگار،سرجا،سرپراحسان،سراُلانے والا سرزمین بلوچستان آج کچھ سرسجدے اور من بدبو میں ہونے والے چند کاسگ چٹ بلوچوں کی وجہ سے زیرقدم ہے ۔اور یہ سرسلاکر بھیجاکھانے والے سرزمین بلوچستان کے اچھوت اوردلال کہ جھنوں نے اپنے قومی لج غیرت ننگ ناموس اورعزت،اور قدر ومنزلت ،قومی وقار اَبروکے عوض دام پنجابی فوج سے چند سکے لیکر وصول کیے اور آج یہ سارے چم جل اور دلال پیسوں کی خاطر اپنے ہی بلوچ قوم اور قوم کا دفاع کرنے والے جہدکاروں اور سرمچاروں کے خلاف استعمال ہورے ہیں ان میں اور ہیرا منڈی میں دلالی کرنے والوں میں ایک فرق ہے کہ ہیرا منڈی میں دلالی کرنے والے لوگوں کی دلالی صرف ایک نسل کو یاد رہے گا کہ یہ لوگ دلال تھے جبکہ سرزمین کے ساتھ دلالی کرتے ہوئے اپنا منہ کالا کرنے والے لوگ نسل درنسل ذلت رسوائی اور تذلیل کا سامنا کرتے رہیں گے اور یہ لوگ دلالی کے لیبل سے زندگی بھر اپنے کالے منہ کو صاف نہیں کرسکیں گے ،بروٹس جنھوں نے جولیس سیزرکے ساتھ غداری کی اور اس وقت کو اب 2ہزارسال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن غداری وطن فروشی اور دلالی کا لیبل آج تک بروٹس کا پیچا نہیں چھوڑ رہا ہے حالانکہ دونوں کو مرے 20ہزار سال ہوچکے ہیں ایک عزت ،منزلت اور دوسرا ذلت اور بے غیرتی کا سمبل بن چکا ہےEphialtesجس نے دوہزار چارسوسال پہلے یعنی 480قبل مسیح میں Battle of Thermopylaeمیں یونانی بادشاہ اورلؤنیداس اور ہخامنشی سلطنت جوموجودہ ایرانی سلطنت کی کڑی ہے جسکے حکمران خشیار شاتھے کہ درمیان ترموپیل کی جنگ میںیونانی قوم کے ساتھ دغا کرتے ہوئے غیرقوم کی مدد کی اور انکو راستہ دکھایا جس نے جنگ کا رخ موڑ دیا اور وہ اس وقت سے یونانی قوم کا غدار اور نمک حرام کے طور پر یاد کیا جارہا ہے دوہزار چارسوسال بعد بھی اسکی اپنے وطن اور سرزمین کے ساتھ غداری اور نمک حرامی کی داستان ختم نہیں ہوا ہے ۔کیونکہ اس وقت ہخامنشی سلطنت نے یونان پر بھی قبضہ کرنے کی خاطر بھاڑے کے سپاہیوں سے کام لیا تھا اور یونان کے بہت سے لوگوں کو کرایہ کا سپاہی بنایا تھا تقریباََ دس ہزار یونان کے لوگ کرایہ کے سپاہی کے طور پر فارس کے ساتھ کام کررہے تھے اس وقت زینوفون جو افلاطون کا شاگرد تھا جسے جنگ سے کوئی سروکار نہیں تھا بلکہ علم و تعلیم سے منسلک تھا وہ بھی سائرس کے ہاں گیا تاکہ کرایہ کے قاتلوں ،جنگ و ہنر پر کچھ سیکھ کرلکھ سکھیں تو اس نے لکھا کہ جب جنگ ہوئی تو کرایہ کے قاتلوں کے ذہنوں میں ایک بات تھی کہ وہ سبب ،علت اورمقصد کے بغیر صرف روپیہ اور پیسہ کی خاطر لڑ رے ہیں اور وہ دوست اور دشمن کی تمیز میں بھی بے بس اور لاچار تھے اس وجہ سے انھوں نے شکست کھائی اور انکی شکست کی وجہ انکے اور انکے گھر کے درمیان رکاوٹ اورباڑ فارس کی فوج ،دریا اور پہاڑنہیں بلکہ مبہم ،مدہوش اور مخمور ذہنی حالت تھی اور ذینوفون اس طرح کی ذلت آمیز موت مرنا نہیں چاہتا تھا وہ کوئی فوجی نہیں تھا بلکہ فلسفی تھا مگر فلاسفر کی حیثیت سے جانتا تھا اور اسے سمجھ تھی اس لئے اس نے کرایہ کی فوجیوں کے ساتھ رہ کر شرمندگی اورذلت سے مرنے کے بجائے اپنی سرزمین پر جانا اور اپنے لوگوں سے معافی مانگنا مناسب سمجھا اور اس نے اس کام کے لئے باقی کرایہ کے قاتلوں کو بھی آگاہی دی اور اس جنگ میں سائرس بھی مارا گیا اور زینوفون نے اپنی زمین کی مٹی پلید کرنے سے بھی خود کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں کو بچایا کیونکہ اسے دوست اور دشمن کا تمیز ہوگیا تھا اور وہ تاریخ میں غدار ،نمک حرام اور تہمت زدہ زندگی گزارنے کی بجائے عزت کی موت مرنا پسند کرتاتھا ۔پاکستانی فوج نے بھی فارس کی طرح کرایہ کے قاتلوں کی ایک فوج بلوچ سرزمین پرتیار کیا ہوا ہے اور انکو بلوچ سرڈگار اور سرزمین کی حفاظت کرنے والے سرمچاروں اور جہدکاروں کے خلاف استعمال کررہا ہے اور بہت سے لوگ سرمچاری سے شرم ساربن کر قابض کی کاسگ چٹی کررے ہیں ،جنھوں نے اپنی قومی غیرت ،ننگ،حیا،پیسوں اور زر کی خاطر بیج دیا ہے اور آج وہ سارے لوگ پنجابی فوج کی دلال بن کر اپنے لوگوں کی دلالی کررے ہیں اور انھیں شاید معلوم نہیں جو غلاظت وہ بلوچ سرڈگار میں چھوڑ رہے ہیں نسل درنسل ان کی اولاد اس کو اپنا ماتھا رگڑ رگڑ کر ہٹا نہیں سکتے ہیں ،کیونکہ یہ لوگ کتے کی طرح پنجابیوں کی پیسوں اور زر کی خاطر اپنے لوگوں کی خون اور اپنی سرزمین کی وسائل ،اور قومی تاریخ ،ثقافت ،کا سودا کرکے قابض کے سامنے دم ہلاتے ہوئے انکے اشاروں میں بلوچ سرمچاروں اور جہدکاروں کا کھوج لگارے ہیں لیکن کتے پھر بھی وطن اور سرزمین کی دلالی کرنے والوں سے ہزار گناہ بہتر ہیں کہ وہ تو اپنے مالک کا وفادار تو ہوتے ہیں اور یہ کرایہ کے دلال تو پیسوں اور زر کی خاطر جب زمین کا سودا کرتے ہیں تو انھیں مالک بدلنے میں کیا دیر لگتا ہے ،اس لیے وطن کی دلالی کرنے والے دلالوں کو کتے سے تشبیہ دینا کتے کی وفاداری سے بے وفائی ہوگی ۔آج پاکستان قومی دلال ثنا ء ،مہراللہ ،آغا ،باسط،حمل،صمد،راشد پٹھان ،ثناء اللہ زہری مالک حاصل،قلاتی سمیت بہت سے دلالوں کو یونانی اور بنگلہ دیش کے الشمس اور البدر کی طرح کرایہ کا سپاہی بنا کر استعمال کررہا ہے اور یہ لوگ وطن کی خاک اور مٹی کی مٹی برباد کرچکے ہیں اور آج سرنڈر کرنے والے دلال سیاھجی اور دشت میں بلوچ سرمچاروں کی نشاندہی اور انکا راستہ یونانی ایجنٹ کی طرح پنجابی کرایہ کا دلال بن کر کررہے ہیں ،جس طرح یونانی دس ہزار لوگ پیسوں اور زر کی خاطر قومی مقصد نصب العین اور عزم کے سامنے نہیں ٹھیرسکے ہاں زینوفون جیسے لوگوں نے سبق لیکر کنارہ کش ہوئے اور باقی لوگ جتنا بھی کرگئے وہ سائرس کو نہیں بچا سکے اور کچھ لوگ غداری اور بے غیرتی کی سمبل بن گئے دشت سیاھجی اور بلوچستان کی جہد میں بھی پاکستان کے ساتھ کرایہ کے دلال جتنی بھی کوشش کریں وہ قومی جزبہ عزم اور مقصد کے سامنے دیوار دیر تک قائم نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ بلوچ سرمچار اور جہدکار وطن سے ہیں اور انکا رشتہ سرڈگار اور سرزمین کے ساتھ ہے اور وہ پیسوں اور زر کی نہیں بلکہ عظیم مقصد یعنی قومی آزادی کی خاطر لڑرہے ہیں اور اس جنگ میں وہ آخر تک ثابت قدمی اور قومی جوش وجزبہ سے لڑیں گے اور جو جوش جزبہ سے لڑتا ہے اسے کوئی کرایہ کا قاتل دلال شکست نہیں دے سکتا ہے ،ہاں جو لوگ دلالی کرتے ہوئے سرزمین کی مٹی پلید کررے ہیں وہ خود دلالی ،بے غیرتی،ذلت کا نشان بنیں گے جس طرح بنگال کے لوگ ہوئے ہیں جنھیں پاکستان نے استعمال کیا اور آج بنگلہ دیش کی حکومت ایک ایک کرکے انھیں پھانسی دے رہا ہے لیکن پاکستان انکی مدد بھی نہیں کررہا ہے اور وہ لوگ اپنی قوم میں لعنت اور ذلت کی علامت بن چکے ہیں کل کو یہ سارے بلوچ جو آج قابض کی کاسگ چٹی کررے ہیں انکا بھی نام غداری وطن فروشی اور بے غیرتی میں بروٹس اور ایپیلیٹس دودا خان ،مہیم خان کی طرح یاد کیا جائے گا اور ساتھ ہی ساتھ انکی نسلیں بلوچ سرڈگار میں اچھوتوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہونگے

یہ بھی پڑھیں

فیچرز