میانمار (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف عوامی احتجاج میں شدت آگئی ہے اور اب اساتذہ سمیت طلبہ بھی فوج کے اقتدار پر قبضے کے خلاف میدان میں آگئے ہیں۔ طلبہ اور اساتذہ کی بڑی تعداد نے ملک میں فوجی بغاوت اور آنگ سان سوچی سمیت سینئر ڈیموکریٹک رہنماں کی گرفتاری کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ اس موقع پر مظاہرین نے ہاتھوں میں سرخ رنگ کے ربن باندھ رکھے تھے اور پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے۔
عالمی میڈیا کے مطابق احتجاج میں شامل طلبہ اور اساتذہ نے منتخب حکومت کے خاتمے اور فوج کے اقتدار پر قبضے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ملک میں فوجی بغاوت نہیں دیکھنا چاہتے۔
احتجاجی مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ ملک میں فوجی بغاوت کو ناکام بنانا چاہتے ہیں اور اقتدار پر قبضہ کرنے والوں کے ساتھ کام نہیں کرسکتے۔ اس موقع پر احتجاجی مظاہرین نے میانمار میں مقبول ہونے والے تین انگلیوں کا سلیوٹ بھی کیا اور فوج کشی کے خلاف نعرے بازی کی۔
احتجاج میں شامل اساتذہ نے کہا کہ وہ موجودہ انتظامی نظام کو روکنا چاہتے ہیں جس کے لیے وہ پر امن جدوجہد کررہے ہیں۔
واضح رہے میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد آنگ سان سوچی کو بھی گرفتار کیا گیا ہے اور ان پر مواصلاتی آلات کی غیر قانونی امپورٹ کا الزام عائد کیا گیا ہے جب کہ پولیس نے سوچی کے گھر سے واکی ٹاکیز برآمد کرنے کا بھی دعوی کیا ہے، میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک 130 کے قریب سیاستدانوں اور حکام کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔