چهارشنبه, اکتوبر 9, 2024
Homeخبریںنشتر ہسپتال کی چھت پر پڑی گلی سڑی لاشوں کی ویڈیوز اور...

نشتر ہسپتال کی چھت پر پڑی گلی سڑی لاشوں کی ویڈیوز اور تصاویر کی حقیقت کیا ہے؟ زبیر اعظم کی رپورٹ

ملتان ( ہمگام نیوز ) تصاویر گذشتہ شام منظر عام پر آئی تھیں جن میں متعدد ایسی لاشیں دیکھی جا سکتی ہیں جو نہایت خراب حالت میں ہیں۔ یہ تصاویر اور ویڈیوز سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر سوالات اٹھے کہ یہ کن لوگوں کی لاشیں ہیں اور بے یار و مددگار کیوں پڑی ہیں؟

 

اس بحث نے افواہوں کے ساتھ ساتھ قیاس آرائیوں کو بھی جنم دیا جس کے بعد پنجاب حکومت نے گذشتہ رات ہی انکوائری کا اعلان کرتے ہوئے نشتر ہسپتال کے میڈیکل سپرٹنڈنٹ کو تین دن کے اندر اندر وضاحت پیش کرنے کا حکم دیا۔

 

پنجاب حکومت کی جانب سے نشتر ہسپتال کے میڈیکل سپرٹنڈنٹ کو لکھے جانے والے خط میں کہا گیا کہ ’نشتر ہسپتال کی چھت پر گلی سڑی لاشوں کی اطلاعات سامنے آنے پر عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور حکام نے اس معاملے کو نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کا فیصلہ کیا ہے۔‘

 

پنجاب حکومت کی جانب سے نشتر ہسپتال کے انتظامی سربراہ کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس معاملے پر ایک تفصیلی تفتیش کریں اور تین دن کے اندر اندر انکوائری کی رپورٹ پیش کریں۔

 

اس انکوائری کے مکمل ہونے سے پہلے ہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الہی کے بیٹے اور سابق وفاقی وزیر مونس الہی کی جانب سے جمعہ کی صبح سوشل میڈیا پر نشتر میڈیکل کالج کی جانب سے دیے جانے والا ابتدائی موقف پیش کیا گیا۔

 

مونس الہی کے مطابق نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے اناٹومی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ نے اپنے جواب میں وضاحت کی کہ ’یہ لاشیں نامعلوم افراد کی تھیں جو پولیس نے نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے حوالے اس مقصد سے کی تھیں کہ ان کا پوسٹ مارٹم کیا جائے۔‘

 

واضح رہے کہ اناٹومی جسمانی اعضا کے بارے میں علم حاصل کرنے کا مضمون ہے جو میڈیکل کالجز میں پہلے دو سال کے دوران ایم بی بی ایس کرنے والے طلبا کو پڑھایا جاتا ہے جبکہ پوسٹ مارٹم وہ عمل ہے جس میں موت کی وجوہات معلوم کرنے کے لیے مرنے والے کے جسم کا معائنہ کیا جاتا ہے اور جسم سے نمونے حاصل کیے جاتے ہیں تاکہ ان کی جانچ پڑتال کی جا سکے۔

 

اس وضاحت کے مطابق ’پولیس کی جانب سے ان لاشوں کو حوالے کرنے کے بعد کہا گیا تھا کہ اگر ضرورت ہو تو ان کو ایم بی بی ایس طلبا کے تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘

 

تاہم، اس وضاحت میں ہسپتال کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’یہ لاشیں گل سڑ رہی تھیں اور ان سے بدبو آ رہی تھی، اس لیے ان کو فریزر میں نہیں رکھا جا سکتا تھا اور ان کی حالت ایسی تھی کہ ان کو تعلیمی مقاصد کے لیے بھی استعمال کرنا ممکن نہیں تھا۔‘

 

 

ہیڈ آف اناٹومی ڈیپارٹمنٹ نشتر میڈیکل یونیورسٹی کی وضاحت کے مطابق ’ان لاشوں کے گلنے سڑنے کا عمل مکمل ہونے کے بعد ان کے جسم سے ہڈیاں الگ کر لی جاتی ہیں جن کو تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور لاشوں کو دفنا دیا جاتا ہے۔ اس لیے لاشوں کی بے حرمتی کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔‘

 

بی بی سی نے نشتر ہسپتال کے میڈیکل کالج کے اناٹومی ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ پروفیسر مریم اشرف سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر وہ ایک پریس کانفرنس کرنے والی ہیں جس میں تمام تفصیلات دی جائیں گی۔

 

تعلیمی مقاصد کے لیے انسانی لاش کیسے استعمال ہوتی ہے؟

تاہم اس وضاحت کو سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے ناکافی قرار دیا اور سوال کیا کہ مقصد جو بھی ہو، کسی کی لاش اس طریقے سے کیسے پھینکی جا سکتی ہے؟ اور ہسپتالوں میں مردہ خانہ کس لیے ہوتا ہے؟

 

ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کے لیے ہم نے شیخ زید ہسپتال رحیم یار خان کے اناٹومی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ تعلیمی مقاصد کے لیے لاشوں کے استعمال کا طریقہ کار کیا ہے اور کیا اس میں قانونی نکات کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے؟

یہ بھی پڑھیں

فیچرز