یکشنبه, اکتوبر 6, 2024
Homeخبریںپاکستانی فوج پر تنقید کے لئے مشہور نامی گرامی صحافی مطیع اللہ...

پاکستانی فوج پر تنقید کے لئے مشہور نامی گرامی صحافی مطیع اللہ جان اسلام آباد سے جبری اغواء

اسلام آباد(ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق پاکستانی فوج پر تنقید کے لیے مشہور پاکستانی صحافی مطیع اللہ جان کو اسلام آباد سے پاکستانی فوج اور اس کے خفیہ اداروں نے جبری طور پر اغواء کرلیا۔ان کی گاڑی اس سکول کے باہر کھڑی ملی ہے جہاں وہ اپنی اہلیہ کو لینے آئے تھے۔

مطیع اللہ جان کی اہلیہ نے بتایا کہ وہ منگل کی صبح ساڑھے نو بجے انہیں سیکٹر جی سکس میں واقع اس سرکاری سکول تک چھوڑنے آئے تھے جہاں وہ پڑھاتی ہیں۔مطیع اللہ کی اہلیہ کے مطابق انہیں اسکول کے سکیورٹی گارڈ نے مطلع کیا کہ ان کی گاڑی سکول کے باہر تقریباً ساڑھے گیارہ بجے سے کھڑی ہے۔

مطیع اللہ جان کی اہلیہ کے مطابق ’گاڑی کے شیشے کھلے تھے، گاڑی کی چابی اور ان کے زیر استعمال ایک فون بھی گاڑی کے اندر ہی تھا۔ان کے مطابق ‘جب میرا اپنے شوہر سے رابطہ نہیں ہو سکا تو میں نے فوراً پولیس کو فون کیا اور کچھ دیر بعد پولیس موقع پر پہنچی۔‘

مطیع اللہ کی اہلیہ کے مطابق سکول کے باہر نصب سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے معلوم ہو سکے گا کہ یہ گاڑی سکول تک کون چلا کر لایا ہے تاہم انہوں نے پولیس کو اپنے شوہر کے لاپتہ ہونے سے متعلق شکایت درج کرا دی ہے۔

تھانہ آپبارہ کی پولیس کے مطابق اس واقعے کی خبر ملنے کے بعد تفتیش جاری ہے اور مطیع اللہ کی اہلیہ کا بیان ریکارڈ کیا جا رہا ہے، مطیع اللہ جان کی گاڑی ان کی اہلیہ کے سکول کے باہر کھڑی ملی ہے۔

خیال رہے کہ مطیع اللہ جان کی بدھ کو سپریم کورٹ میں توہین عدالت کے مقدے میں پیشی تھی۔ گذشتہ بدھ کو پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد نے انہیں ایک متنازعہ ٹویٹ پر نوٹس جاری کیا تھا۔

ماضی میں بھی مطیع اللہ جان کو ہراساں کرنے کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔

ستمبر2017 میں بھی مطیع اللہ جان کی گاڑی پر حملہ کیا گیا تھا۔ یہ واقعہ اسلام آباد میں بارہ کہو کے مقام پر پیش آیا تھا جب موٹر سائیکل پر سوار افراد نے مطیع اللہ کی گاڑی کی ونڈ سکرین پر اینٹ دے ماری تھی جس سے ونڈ سکرین پر دراڑیں پڑی تھیں۔
حملے کے وقت گاڑی میں مطیع اللہ جان کے بچے بھی ان کے ساتھ گاڑی میں موجود تھے۔

اس کے علاوہ جون 2018 میں اس وقت کے فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے جب سوشل میڈیا کے بعض اکاؤنٹس پر ریاست مخالف پراپیگنڈے پر مبنی ٹویٹس کا الزام لگایا تھا اور ایسے اکاؤنٹس کا ایک چارٹ دکھایا تھا تو اس میں بھی مطیع اللہ جان کا اکاؤنٹ نمایاں کر کے دکھایا گیا تھا۔

مطیع اللہ جان کی گمشدگی کی خبر عام ہوتے ہی پاکستانی سوشل میڈیا پر بھی تبصرے ہونے لگے۔

محسن داوڑ نے کہا کہ وہ مطیع اللہ جان کی گمشدگی کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اس “پاک سرزمین” پر جو بھی طاقتوروں کے سامنے سچ بولنے کی ہمت کرتا ہے لاپتہ ہو جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اختلاف کرنا حب الوطنی ہے اور وہ ریاست اور حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مطیع اللہ جان کی بحفاظت برآمدگی کو یقینی بنایا جائے۔

صحافی عباس ناصر نے مطیع اللہ جان کی گمشدگی کی خبر دیتے ہوئے ان کے تحفظ کی امید ظاہر کی اور کہا کہ “اس فاشسٹ دور میں اس قسم کے مایوس کن اقدامات زیادہ دیر نہیں چل سکتے”۔

اینکر اور صحافی عاصمہ شیرازی نے اپنے مختصر ٹویٹ میں لکھا ’مطیع اللہ کو واپس لاؤ‘۔
ماضی میں مطیع اللہ جان کے ساتھ کام کرنے والے صحافی اسامہ بن جاوید نے لکھا کہ مطیع اللہ جان پاکستان کی چند تنقیدی آوازوں میں سے ایک ہیں اور اگر وہ لاپتہ ہوئے ہیں تو یہ پاکستان کی حکومت اور سکیورٹی کے ذمہ دار افراد پر ایک سوالیہ نشان ہے کیونکہ یہی وہ ادارے ہیں جو تنقید کا ہدف رہے ہیں۔

انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مطیع اللہ جان کے اغواء کے حوالے سے رد عمل دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی۔سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر ردعمل دیتے ہوئے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ٹوئیٹ کی کہ ہمیں مطیع اللہ جان کے اغواء پر شدید تشویش ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مزید کہا کہ مطیع اللہ جان اپنی بے باک اور دلیرانہ صحافت پر اس سے پہلے بھی حملوں کی زد میں رہے ہیں متعلقہ اداروں کو فوراً انہیں منظر عام پر لانا چاہئیے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز