کوئٹہ (ہمگام نیوز ) 20نومبر2017کو کراچی یونیورسٹی میں طلبا کے سامنے ریاستی اداروں کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ کئے جانے والے صغیر احمد کے بہن حمیدہ بلوچ آج کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ جس درد اورتکلیف سے میں اورمیری خاندان گزررہی ہے اس کا اندازہ صرف انہی لوگوں کو ہوسکتا ہے جن کے پیارے کھوچکے ہیں لفظ لاپتہ سننے میں ایک عام الفاظ جیسا ایک لفظ ہے مگر اس لفظ سے جڑے تکالیف کو الفاظ میں بیان کرنا آسان نہیں ۔میں اور میری خاندان گزشتہ پانچ مہینے سے اسی عذاب سے دوچار ہیں میرے بھائی صغیر جان کو20نومبر2017کو کراچی یونیورسٹی میں طلبا کے سامنے ریاستی اداروں سے وابستہ اہلکار اُٹھا کر لئے گئے وہ کراچی یونیورسٹی میں بی ایس پولیٹیکل سائنس کاطالبعلم ہے۔
حمیدہ بلوچ نے کہاکہ میں خود بھی نرسنگ کا طالبہ ہوں،صغیر کے لاپتہ ہونے کے بعد پورے خاندان کا زندگی درہم برہم ہوچکاہے ۔ہم غریب اورمزدور پیشہ لوگ ہیں۔والد ٹرک ڈرائیور اورماں سلائی کڑھائی کا کام کرتی ہیں پورے خاندان میںیہی اکیلا بھائی تعلیم حاصل کررہاتھااورہماری ماں اکثر کہتے ہیں’’ میں جانتی کہ تعلیم کے بدلے میں میری آنکھوں کا تارا مجھ سے چن جائے گا میں انہیں کبھی بھی اپنے آپ سے دور جانے نہیں دیتی ۔میری ماں روروکر کہتی ہیں ’’میرا صغیر واپس لاؤ میں انہیں کبھی تعلیم کے لئے کہیں بھی نہیں بھیجوں گا۔اپنے پاس رکھوں گا۔‘‘
انہوں نے مزید کہامیں نے ایف اے تک تعلیم حاصل کی ہے اورمیں نرسنگ کی کورس کررہی تھی کہ میرا بھائی لاپتہ کیاگیا تو میں پڑھائی ادھوری چھوڑ کر کبھی یہاں تو کبھی وہاں ماری ماری پھرتی ہوں۔میں مایوسی کی راج میں امید اور حوصلے کے سہارے جی رہی ہوں کہ ایک دن صغیر کو واپس لاؤں گی ۔جہاں بھی مجھے ایک چھوٹی سی امید نظر آتی ہے تو فوراََ وہاں پہنچ جاتی ہوں اوراُس دروازے کو کھٹکتاتی ہوں، لوگ تعاون کرتے ہیں ایچ آرسی پی کے لوگوں نے میرے ساتھ تعاون کی ہے میں کہتی ہوں کہ لوگوں کے دلوں میری آواز پہنچتی ہے لیکن پاکستان کے اداروں کی دلوں پر مہر لگ چکی ہے ان تک انسانوں کی آواز نہیں پہنچتی اگر ایسا ہوتا تو کم از کم ایک دربدربیٹی کی آواز ضروران کی کانوں تک ،ان کی دلوں تک پہنچ جاتی ۔
حمیدہ بلوچ نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ صحافی ہیں صحافت کو مقدس پیشہ اس لئے کہاجاتاہے کہ اس میں حق و صداقت کے لئے آواز اٹھایاجاتاہے، آپ میری آواز ریاست کے عدلیہ اور ایوانوں تک پہنچائیں اور یہ سوال اٹھائیں کہ میرے بھائی کوکس قانون کے تحت کے اٹھایا ہے جبکہ ریاست پاکستا ن کے آئین کسی طورسے اس کی اجازت نہیں دیتاہے ۔میں آئین کے دو آرٹیکل پڑھتی ہوں اوران کے مطابق انصاف چاہتی ہوں جن کا ضامن ریاست ہے اوراگرریاست آئین و قانون کے خلاف کوئی اقدام کرتاتو یہ عدلیہ کی ذمہ داری بنتاہے کہ وہ اس کا ازالہ کرے ۔
آئین کہتاہے کہ۔۔۔
آئین کے آرٹیکل 9۔کسی شخص کو،زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیاجائے گاسوائے جبکہ قانون اس کی اجازت دے ۔
آرٹیکل 10شق(۱)کسی شخص کو جسے گرفتار کیاگیاہو مذکورہ گرفتاری کی وجوہ سے ،جس قدر جلد ہوسکے ،آگاہ کئے بغیرنہ تو نظربند رکھائے گااورنہ اُسے اپنی پسند کے کسی قانون پیشہ سے مشورہ کرنے اور اس کے ذریعہ صفائی پیش کرنے کے حق سے محروم کیاجائے گا۔
شق(۲)ہر اُس شخص جسے گرفتار کیاگیاہواورنظر بند کیاگیاہواور نظربند رکھاگیاہومذکورہ گرفتاری سے چوبیس گھنٹے کے اندرکسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا لازم ہوگالیکن مذکورہ مدت میں وہ شامل نہ ہوگاجومقا م گرفتاری سے قریب ترین مجسٹریٹ کی عدالت تک لے جانے کے لئے درکار ہواورایسے کسی شخص کوکسی مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر مذکورہ مدت سے زیادہ نظربندنہیں رکھاجائے گا۔
میں جانتی ہوں کہ میرا بھائی بے گناہ ہے اگر میرے بھائی سے کسی بھی قسم بھی قسم کا غیر قانونی عمل ہوا ہے تواسے عدالت کے سامنے پیش کریں ۔
حمیدہ بلوچ کا کہناتھاکہ جس دن میرے بھائی کو کراچی یونیورسٹی سے اُٹھایا گیا تھا میں اپنی فریاد حکام بالا اور انسان دوست لوگوں تک پہنچانے کیلئے کراچی پریس کلب کا رخ کیا تو مجھے پریس کانفرنس کیلئے اجازت نہیں دی گئی تو میں نے مایوس ہونے کے بجائے اپنی فیملی کے ساتھ پریس کلب کے باہر فٹ پاتھ پر بیٹھی اور اپنا احتجاج ریکارڈکروائی،اسکے بعد ایف،آئی،آر درج کرانے میں اس سے زیادہ مشکلات اور تذلیل کا سامنا کرناپڑی،اپنے بھائی کے بازیابی کے لئے یہ سب مشکلات کا سامنا کیاکہ جب بات عدلیہ تک پہنچے گاتومجھے جلد انصاف ملے گا
انہوں نے کہاکہ میں نے اپنے بھائی کی بازیابی کیلئے سندھ ہائی کورٹ میں کیس درج کیا۔ جس میں پہلی پیشی 4جنوری2018کو رکھا جب میں اُس دن کورٹ پہنچی تو وکیل نے کہا آج پیشی ملتوی کی جاچکی ہے18جنوری کو پیشی ہے،جب 18جنوری کو میں اُمید لیکر زندگی میں دوسری مرتبہ کورٹ جا پہنچی تو وکیل سے ملا وہی جواب ملاکہ پیشی منسوخ ہوگیا ہے، وکیل نے کہا7فروری کو آپ نے کورٹ پہنچنی ہے اسی انتظار میں7فروری بھی آپہنچی،میں کورٹ چلی تو اس دن میں کورٹ میں پیش ہوئی اپنی فریاد سنائی جہاں صغیر احمد کو لاپتہ کرتے وقت چشم دید گواہ بھی پیش ہوگئی، جس نے اپنے بیانات قلم بند کروائے،تو اگلی پیشی کیلئے 15فروری کے دن رکھا اس دن والی پیشی بھی پچھلے دو پیشیوں کی طرح منسوخ پھر دو مارچ کو پیشی کیلئے ہمیں بُلایا تو بھی کینسل،ان پانچ مہینوں میں صرف ایک پیشی ہوچکی ہے آج بھی کیس سندھ ہائی کورٹ میں چل رہی ہے مگر نتیجہ مایوس کُن ہے ۔
حمیدہ بلوچ نے کہاکہ مجھے اب تک مایوسی کے سوا کچھ بھی نہیں ملی ہے لیکن میں مایوس نہیں ہوں میری ایمان ہے کہ انسانیت زندہ ہے ،انسانی ضمیر اب بھی باقی ہے ،میں انسانیت اور انسانی ضمیر سے سوال کرتی ہوں کہ کیا ہم جنگل میں رہتے ہیں ،جہاں جنگل کا قانون رائج ہے ۔بظاہر تو ایسا لگ رہی ہے کہ قانون کہیں دفن ہوچکاہے ۔
میں آپ صحافی حضرات سے صرف یہ نہیں کہتی ہے کہ میری پریس کانفرنس کو رپورٹ کریں بلکہ آپ میری آواز بنیں ،آپ کے قلم میں طاقت ہے ،قلم ایک مقدس امانت ہے اس قلم کو حق و انصاف کے لئے اٹھائیں ۔
حمیدہ بلوچ نے حکومت پاکستان،عدالت عظمیٰ ،انسانی حقو ق کے اداروں اورسول سوسائٹی سے اپیل کی ہے کہ میرے بھائی کے باحفاظت بازیابی کے لئے آواز اٹھائیں میرے خاندان کو اس دردسے نجات دینے میں میری مدد کریں