پیرس(ہمگام نیوز) صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے عالمی موسمیاتی معاہدے سے علیحدگی کے نتیجے میں عالمی تپش کے تدارک اور شفاف توانائی کے فروغ کے حوالے سے، چین تیزی سے قائدانہ کردار کی جانب ابھرے گا، جس کا کبھی گمان تک نہیں تھا، اور ماحولیات سے ہٹ کر باقی عالمی معاملات میں بھی یہی صورت حال ہوگی۔ ٹرمپ کا اعلان کہ امریکہ پیرس معاہدے سے الگ ہوجائے گا، فوری طور پر بین الاقوامی تنقید شروع ہوگئی ہے، جس سے تاثر مل رہا ہے کہ بغیر روک ٹوک کی تجارت اور بیرونی امداد کے معاملات میں پالیسیوں میں تبدیلی کے بعد، اب ماحولیات کے شعبے میں بھی پسپائی عیاں ہے۔ عین ممکن ہے کہ چین یہ خلا پُر کرے۔ انسان کے پیدا کردہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے دنیا کے سب سے بڑے موجب، چین پہلے ہی تیزی سے پیرس کے اہداف کے حصول کی جانب بڑھ رہا ہے، جس میں 2030ء تک اخراج کو بڑھنے سے روکنا شامل ہے۔ قابلِ تجدید توانائی کی جانب پیش قدمی کے حوالے سے چین پہلے ہی امریکہ کی بنسبت آگے ہے، وہ اپنی بجلی کی پیداوار کا پانچواں حصہ قابل ِتجدید وسائل سےحاصل کر رہا ہے؛ جب کہ امریکہ قابلِ تجدید ذرائع سے محض اپنی 13 فی صد توانائی حاصل کر رہا ہے۔ حالانکہ چین کی 1.3 ارب کی آبادی کو آلودگی کا مستقل مسئلہ درپیش ہے، وہ کوئلے پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ لیکن، ملک کے کمیونسٹ حکمراں کیتے ہیں وہ بنیادی تبدیلی لانے پر پُرعزم ہیں۔ اب دنیا چین کے اس عزم کی جانب دیکھ رہی ہے، جو عالمی اسٹیج پر اپنا جھنڈا گاڑنے کا خواہاں لگتا ہے۔ کیرولین بارتھولومیو یو ایس چین اکنامک اینڈ سکیورٹی رویو کمیشن کی خاتون سربراہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اُس وقت سے اس راہ پر گامزن ہے، جب ٹرمپ ابھی منتخب نہیں ہوا تھا۔ذاتی حیثیت سے ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے، لیکن ایوان کی دوطرفہ پینل کی نمائندگی نہ کرتے ہوئے جو کانگریس کو مشاورت فراہم کرتا ہے، اُنھوں نے کہا کہ عالمی ذمہ داری کی پوزیشن سے امریکہ کو الگ کرکے، دراصل وہ چین کے لیے آسانی پیدا کر رہے ہیں۔ جمعرات کو جب ٹرمپ نے روز گارڈن سے خطاب کیا، چین اپنی پوزیشن پر مستحکم ہونے لگا تھا۔ اس ہفتے چین کہہ چکا تھا کہ وہ یورپی یونین سے مل کر اس سمجھوتے کو سربلند کرنے کی سعی کرے گا، بیشک امریکہ جو چاہے فیصلہ کرے۔ چین کے وزیر اعظم لی کیکیانگ اور یورپی یونین کے اہل کار جمعے کو برسلز میں اس معاملے پر گفت و شنید کریں گے۔ اِس حد تک کہ ممکنہ امریکی پارٹنر بھی بحر الکاہل پار ہاتھ بڑھانے لگے ہیں۔