پاکستان 14 اگست کے دن کو اپنے یومِ آزادی کے طور پر مناتا آیا ہے حالانکہ غیر جانبدار تاریخ دان نا پاکستان کے آزاد ہونے والے اصطلاح سے اتفاق رکھتے ہیں اور نا ہی اس کیلئے 14 اگست کے دن کو حقیقی مانتے ہیں ، سیاسی ماہرین و تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کبھی آزاد نہیں ہوا بلکہ وہ ہندوستان کے بٹوارے کے صورت میں معرضِ وجود میں آیا ہے اور اگر اس بٹوارے کو آزادی کہا بھی جائے تو یہ بٹوارہ 15 اگست کے دن ہوا تھا نا کہ 14 اگست کے دن اور پاکستان کے غیر فطری طور پر معرضِ وجود میں آنے کے کئی سال تک 15 اگست کو ہی یوم آزادی منایا جاتا رہا لیکن بعد ازاں تاریخ کے ساتھ کھلواڑ کرکے انہوں نے اس تاریخ کو 14 اگست کرلیا جس کے دو بڑے وجوہات تھے اول یہ دن 27 رمضان جمعتہ الوداع کو آتا تھا جو مسلمانوں کیلئے ایک مقدس دن ہے ، جس کو استعمال کرکے وہ لوگوں کے مذہبی جذبات بڑھکانے اور پاکستان کو کوئی خدائی تحفہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسری وجہ وہ خود کو ہندوستان سے الگ اور ممتاز کرنے کی کوشش کرنے کے جتن میں اپنا یوم ایک دن پہلے رکھ دیا ۔ یعنی تاریخ کی اکھاڑ بچھاڑ کرکے پاکستان میں کروڑوں لوگوں کو کئی سالوں سے دھوکے میں رکھتے ہوئے اپنے پسند کا سچ سِکھا اور دِکھا جا رہا ہے ۔ جس طرح یہ 14 اگست کی تاریخ ایک دھوکہ ہے اسی طرح اپنے دھوکوں کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے پاکستان نے مقبوضہ بلوچستان میں رائے عامہ اور اقوام عالم کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے ایک اور دھوکے کیلئے خاص اقدامات کیئے تھے۔ جہاں ایک طرف اربوں روپے خرچ کرکے مقبوضہ بلوچستان میں خاص طور پر نام نہاد جشنِ آزادی کو منانے کیلئے پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا ، ہر طرف بندوق کے نوک پر پاکستان کے جھنڈے گھاڑے گئے ، لوگوں کے گاڈیوں کو زبردستی روک کر ان پر جھنڈے لگائے جاتے اور انہیں دھمکی دی جاتی کہ اگر انہوں نے یہ جھنڈا اتارا تو انہیں بھی لاپتہ کیا جائے گا ، اطلاعات کے مطابق کئی شہروں میں گھروں اور دکانوں پر پاکستانی فوج قافلوں کی صورت میں آکر جھنڈے لگاتا اور بعد میں اسی گھر یا دکان والے کو دھمکی دیتے کہ سب کے نام نوٹ کیئے گئے ہیں اگر کسی کا جھنڈا 14 اگست سے پہلے اترا تو اسے بھی لاپتہ کیا جائے گا ، لیکن اسکے باوجود بلوچستان بھر میں پاکستانی جھنڈے جلانے اور سیاہ جھنڈے لہرانے کا سلسلہ جاری رہا جس کی وجہ سے ان جھنڈوں اور پاکستانی فوج کے لگائے گئے بینروں کے حفاظت کیلئے خصوصی دستے اور چوکیاں تشکیل دی گئی تھی۔ بلوچستان کے تمام بڑے شہروں میں پروگرام منعقد کرنے کیلئے کروڑوں خرچ کیئے گئے اور لوگوں کو خاص طور پر دھمکی دی گئی تھی خاص طور پر سرکاری ملازموں کو کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ حاضری دیں ورنہ بھیانک انجام ہوگا ۔ ایک طرف یہ قابض ریاستی ڈرامہ چل رہا تھا تو دوسری طرف بلوچستان میں اپنے شکست خوردہ فوج کا مورال بلند کرنے اور لوگوں کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کی خاطر بلو چ مسلح جہدکاروں کے سرنڈر کرنے کا ڈرامہ بھی رچایا گیا پاکستانی میڈیا کے مطابق کوئٹہ میں قابض کے نام نہاد جشنِ آزادی کے موقع پر 400 اور پنجگور میں 44 مسلح جہدکاروں نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں لیکن آزاد ذرائع اور بلوچ تنظیمیں سرنڈر کرنے کے ان خبروں کی سختی سے تردید کررہے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو سرنڈر کرتے ہوئے دِکھایا جاتا ہے وہ یا تو پاکستانی آرمی کے بنائے گئے ڈیتھ اسکواڈوں کے کارندے ہیں یا دور دراز علاقوں سے لائے گئے غریب بلوچ ہیں جنہیں دھمکی دیکر یا پیسوں کا لالچ دیکر میڈیا کو دِکھانے کیلئے جمع کیا گیا ہے اور سرنڈر کے دوران جو ہتھیار دِکھائے گئے ہیں وہ یا تو پاکستانی قابض آرمی کی طرف سے انہیں تھمائے گئے ہتھیار ہیں یا پھر مزاحقہ خیز حد تک شکار کھیلنے والے یا قدیم ہتھیار ہیں جن کا استعمال بلوچ عسکریت پسند کرتے ہی نہیں ہیں ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ قابض ریاست پاکستان 14 اگست کے دن یہ ڈرامہ اس لیئے رچا رہا ہے کہ اس وقت بلوچستان میں پاکستان کا وجود صرف اسکے آرمی کیمپوں اور چوکیوں کے حد تک ہے وہ پیسے اور بندوق کے زور پر اپنے ختم ہوتے وجود کو سہارا دینے کیلئے ایسا ڈرامہ کررہا ہے اور بلوچستان سے باہر کے لوگوں کو دِکھانا چاہتا ہے کہ اسکی عملداری یہاں قائم ہے اور بلوچ اسکے ساتھ ہیں حالانکہ یہ بالکل حقیقت نہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پورے بلوچستان میں ایک بھی 14اگست کا ایسا پروگرام منعقد نہیں ہوا جس میں فوج کی بھاری نفری موجود نہیں تھی اور دوسری طرف سرنڈر کا یہ ڈرامہ رچا کر قابض ریاست نا صرف بلوچ عسکریت پسندوں کو کمزور ظاھر کرنا چاہتا ہے بلکہ بلوچستان میں پہلے سے جاری آپریشن کے شدت میں تباہ کن اضافہ کرنا چاہتا ہے ۔ قابض ریاست کے ان سارے ڈراموں اور بے تحاشہ طاقت و پیسہ خرچ کرنے کے باوجود اسکے نتائج اسکے حق میں نہیں آئے ، بلوچ عوام نے مجموعی طور پر پاکستان کے ان پروگرواموں سے بے نیازی اور لاتعلقی ہی ظاھر کی کہیں بھی عوام کی رضاکارانہ شرکت دیکھنے کو نہیں ملی حتیٰ کے کوئٹہ میں زبردستی منعقد ہونے والے پروگرام میں جب پاکستان کے جنرل جنجوعہ آئے تو لوگوں کے عدم شرکت پر وہ انتہائی برہم ہوئے اور میڈیا کے کیمرے بند کرنے کا حکم دیا اور فوراً آرڈر دیا کے تمام پولیس اہلکاروں کو بلایا جائے اور انہیں تاکید کی جائے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کو بھی لائیں بصورت دیگر سب کو فارغ کیا جائے گا ، جس کی وجہ سے انکا پروگرام انتہائی تاخیر سے شروع ہوا ، کوئٹہ کے دوسرے پشتون علاقوں میں کچھ جگہوں پر جشن منانے کے منظر فوجی پھیرے میں نظر آئے تاہم کوئٹہ کے بلوچ علاقے پورا دن سنسان رہے ۔ دوسری طرف بلوچ مسلح آزادی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے 14 اگست کے مناسبت سے ایک پمفلٹ بھی تقسیم کیا جس میں 14 اگست کو بلوچوں کیلئے ایک یوم سیاہ قرار دیا گیا اور پاکستان کے منعقدہ پروگراموں سے بلوچ عوام کو دور رہنے کی تاکید کی گئی ۔ اسکے علاوہ بی ایل اے نے فورٹ منرو اور حب چوکی میں 14 اگست کے پروگراموں پر حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی ۔ ان حملوں کے علاوہ 14 اگست کو بلوچستان کے علاقے خضدار اور مکران کے کئی علاقوں میں متعدد حملوں کی اطلاعات آتی رہی ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جس بڑے پیمانے پر پاکستانی فوج نے طاقت اور پیسے کا استعمال کرکے اس بار بلوچستان میں 14 اگست شایانِ شان طریقے سے منانے کا تہیہ کیا تھا وہ انتہائی بری طرح سے ناکام ہوگیا ہے یہ پاکستان اور اسکی فوج کی بلوچستان میں سب سے بڑی اخلاقی شکست ہے ۔