چین وہ واحد ملک ہے جسے پاکستان نے بلوچوں کے وسائل لوٹنے کی زمہ داری سونپی ہے جو سب سے زیادہ بلوچستان کی معدنیات پر طویل المیعاد اجارہ داری پر کام کررہا ہے۔ پاکستان بلوچستان کے وسائل پر بولی لگا کر چائنا کو اونے پونے داموں میں بیچ دیا ہے جس سے بلوچستان کے وسائل تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔ اس طرح مستقبل میں بلوچ سرزمین بانجھ و بنجر ہوکر آنے والی نسل کے لئے مزید مشکلات اور معاشی بحران کا سبب بنے گا۔ چین کے اس ظالمانہ اور دوغلی پالیسی سے بلوچستان کے عوام کا معاشی قتل عام ہو رہا ہے کیوں کہ چین بلوچستان کے نام نہاد سرداروں، نوابوں، لٹیروں اور غیر تعلیم یافتہ سادہ لوح لوگوں کو ممبر شپ کارڈ اور ٹھیکیداری کے سند دے کر اپنی اجارہ داری کو دوام بخشنے کے علاوہ ان افراد کو استعمال کرکے بلوچستان کے دور دراز شہروں سے پتھروں کے نمونے لا کر لیبارٹری ٹیسٹ کراتی ہے۔ ان حقائق کے آئینے میں بلوچستان کے معدنیات پر چین کی قبضہ گیریت اور اجارہ داری کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چین کی بلوچستان کے وسائل پر اجارہ داری سے نہ صرف بلوچستان کے عوام بلکہ عالمی طاقت امریکہ کو بھی پریشانی لاحق ہے کیوں کہ امریکہ اور ایران کی طویل اعصابی جنگ سے لے کر مسلح جنگ تک کے خطرات منڈلانے کے باوجود چین نے مقبوضہ مغربی بلوچستان جو ایران کے زیر قبضہ ہے، کروڑوں ڈالرز کے تجارتی معاہدات کرا کر انڈیا،امریکہ اور دیگر کمپنیوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ چین جہاں بھی چاہے امریکی پاپندیوں کے باوجود، اپنی طاقت کے گھمنڈ میں کمپنیوں کو منافع فراہم کرکے انہیں خریدنے کی بھی استطاعت رکھتی ہے۔ جس طرح چین کے بدنام زمانہ کمپنی ایم سی سی، میٹرولوجیکل کارپوریشن کمپنی نےبلوچستان کے علاقے سیندک میں (سیندک میٹلز لمیٹڈ) sml نامی کمپنی کو بلیک میل کرکے اور طبقاتی اجارہ داری کے نام پر افسران اور وزیروں کو خرید کر انہیں بلوچستان کے معدنیات کے ٹھیکوں کے اسناد دے کر پاکستانی میڈیا کے ذریعے یہی پیغام نشر کروایا کہ ” کھودا پہاڑ نکلا چوہا” سیندک کے وسیع پراجیکٹ پر اپنا طویل اجارہ داری قائم کی تھی۔ اس کے بعد ریکوڈک معاہدے پر بھی رخنہ ڈال کر فنڈ ریلیز کرکے اپنے نام پر کوشش کر رہی ہے حتی کہ عالمی عدالت نے ریکوڈک کیس پر جو پاکستان کو جرمانہ کیا تھا، چینی کمپنی نے ہرجانہ ادائیگی کی بھی حامی بھر لی ہے۔ چینی کمپنیوں کی حکمت عملی، چین کی تجارتی حکمت عملی اور ملکی خارجہ پالیسیوں کو پاکستان جیسی غیر ترقی یافتہ ملک یکدم قبول کرکے اپنے لیے خوش بختی سمجھتا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ چینی کمپنیوں کی بلوچستان میں لوٹ ماری کو پائیدار ترقی کے نام سے چین کا ماتحت بن کر کھلی چوٹ دی ہے۔ بلوچستان کے 90 فیصد وسائل پر چین کی مختلف کمپنیوں کا قبضہ ہے مگر حقیقت میں ان سب کمپنیوں کو چائنا کی M.C.C کمپنی چلا رہی ہے اور ان کمپنیوں کو اتنے اختیارات بھی دی گئی ہے کہ اپنی مرضی کے چیئرمین سینٹ یا دیگر من پسند حکومتی اراکین کو خرید کر اپنے معاہدات کی پاسداری کے لئے ان سے کام بھی لے سکتا ہے جو کہ بلوچستان میں کئی بار دیکھنے کو ملے ہیں۔ بلوچ قومی وسائل کی لوٹ مار کو روکنے کیلئے سب سے زیادہ زمہ داری قوم دوست آزادی پسند پارٹیوں اور رہنماوں کے کندھوں پر آن پہنچی یے۔ آج عالمی و علاقائی سیاست کے تناظر کو دیکھتے ہوئے بلوچ قومی مفاد کو بچانے کیلئے نادر مواقع دستیاب ہے۔ بشرطیکہ بلوچ آزادی پسند اسٹیک ہولڈر اس بارے میڈیا میں سیاست بازی اور بیان بازی سے گرہیز کریں،بلکہ اپنے آپسی ایک دوسرے کے ساتھ بیک ڈور چینلز سے روابط استوار کرکے خود کے گلے شکوے دور کرے،سب کے سب کھلے دل سے اپنے غلطیوں کا اعتراف کرکے آگے نئی سوچ کے ساتھ بڑھ سکتے ہیں۔ وگرنہ ہاتھ آیا وقت ایک بار چلا گیا پھر پھچتانے کے سوا کچھ بھی نہ رہے گا۔ فیصلہ انھی کو کرنا ہے ،موجودہ سیاسی انتشار ،عوامی حمایت کی کمی کارکنوں کی مایوسی،دشمن کی بے رحمی ،عالمی حالات کے تیزی کے ساتھ تبدیلی کی سمجھ بوجھ ہم سب کو ہونا چائیے۔وگرنہ افسوس ہی کرتے رہینگے۔وہی افسوس کسی کام کا بھی نہیں رہے گا۔ خدا نہ کرے اگر اس بار یہ تحریک ناکام ہوئی تو بلوچستان کی آزادی کیلئے ہزاروں جانیں قربان کرنے والے ،ہزاروں اسیران کی جبری گمشدگی ،ہزاروں گھرانوں کی جلاوطنی کے تکالیف وغیرہ ان سب کے احتساب و حساب موجودہ لیڈرشپ سے لیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ سیاسی معاملات کی تمام اچھے اور برے فیصلوں کے مکمل اختیارات انھی کے دائرہ اختیار میں ہیں۔