چهارشنبه, اپریل 23, 2025
Homeخبریںڈاکٹر دین جان کے خاندان نے بے پناہ مظالم سہہ لئے ہیں:بی...

ڈاکٹر دین جان کے خاندان نے بے پناہ مظالم سہہ لئے ہیں:بی این ایم

کوئٹہ (ہمگام نیوز)​ بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں آزادی کی تحریک کو کچلنے اورتحریک سے وابستہ سیاسی دانش اورپختہ فکر و شعورکے حامل افراد کو حراست بعد لاپتہ کرنا اورانسانیت سوز اذیت کا نشانہ بنانااوربہیمانہ تشددسے شہید کرنا پاکستانی ریاست کا معمول بن چکاہے ۔ کئی سالوں سے جاری اس غیر انسانی عمل میں ہزاروں لوگوں کو پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں نے حراست میں لے کر ٹارچر سیلوں میں منتقل کیاہے اورانہی لاپتہ افرادمیں ہزاروں لوگوں کو غیر انسانی تشددسے شہید کرکے ان کی لاشیں جنگلوں ،ویرانوں میں پھینک دی جارہی ہیں ۔

ترجمان نے کہا ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو 2009میں آج ہی کے دن پاکستان کے خفیہ اداروں نے حراست میں لے کر لاپتہ کیا۔ ڈاکٹر دین محمد بلوچ نہ صرف بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی رہنما ہیں بلکہ وہ ایماندار اورقابل معالج کے طورپر سرکاری شعبہ صحت میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کو اورناچ جیسے پسماندہ علاقے سے اٹھا کر لاپتہ کیاگیا جہاں وہ ایک مسیحا کے طورپر جانے جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو حراست میں لے کر اذیت گاہوں میں پابند سلاسل کرنابلوچ قوم کو ایک بہادر لیڈر سے محروم کرنا ہے۔ انہیں لاپتہ کرنے کا مقصد بلوچ قوم کی دانش اورپختہ شعور کو کچلنا ہے لیکن پاکستان اس میں سراسر ناکام ہوچکا ہے کیونکہ پابندسلاسل ڈاکٹر دین محمد بلوچ ہر باشعورکے دل کے غزالی دھڑکنوں میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر دین جان آج ہر بلوچ کے شعورکاجزولاینفک حصہ ہیں۔ وہ بلوچ سماج اورمعاشرت میں ایک ہستی کا درجہ حاصل کرچکے ہیں جس کی آواز زندان سے گونج رہاہے ۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں ریاست کے ہاتھوں لاپتہ افرادکے رشتہ داروں نے پرامن احتجاج کے تما م راستے آزمائے۔ حتی کہ پاکستان کے عدالتوں کے بھی دروازے کھٹکھٹائے لیکن پاکستان کے عدالت اپنی منافقت ،جانبداری اورریاستی فوج اورخفیہ اداروں کے ساتھ کھڑے ہوکر دنیاکے عدالتی تاریخ کے لئے بدنما داغ بن چکے ہیں ۔ بلوچ قوم پر یہ واضح ہوچکاہے کہ عدالت ،میڈیااورنام نہاد سول سوسائٹی ریاستی بیانیے کے ساتھ کھڑے ہیں اور بلوچ قوم نسل کشی میں برابر کے شریک ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ پاکستان گزشتہ انتخابات کی بلوچ قوم کی مکمل بائیکاٹ سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوکراس بار فوجی بربریت اورتشددپر مشتمل نئی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوکر مظالم کا نئی داستان رقم کررہی ہے۔ نام نہاد جمہوری انتخابات کے تاریخ کے اعلان سے بہت پہلے بلوچستان کے طول وعرض میں لوگوں کو اٹھا کرلاپتہ کرنے کے سلسلے میں بے پناہ شدت لائی گئی۔ پاکستان نے یہاں اپنے پارلیمانی حواریوں کے ساتھ لاپتہ افراد کو الیکشن میں لوگوں کو زبردستی حصہ داری کرنے کے لئے ایک حربے کے طورپر استعمال کرنے کی پالیسی پر عمل پیراہے ۔
پاکستان چالیس ہزار لاپتہ افراد میں میں صرف ایسے چند لوگوں کورہاکررہاہے جنہیں یاتوالیکشن کے کامیابی کے حربے کے طورپراٹھایاگیا تاکہ انہیں ڈھال کے طورپراستعمال کرکے ان کے رشتہ داروں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھایاجائے۔ آج تک پاکستان نے ایک سیاسی ورکر کو رہانہیں کیاہے اور ہزاروں زیرحراست لوگوں میں چند لوگوں کی رہائی بلوچ قوم پر احسان نہیں بلکہ ان سے کئی زیادہ تعداد اسی دوران اٹھاکر فوجی ٹارچرسیلوں میں منتقل کئے جارہے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہزاروں لوگوں کو صرف گزشتہ دومہینوں میں اپنے آبائی علاقوں سے بیدخل کرکے فوجی کیمپوں کے بغل میں منتقل کیاگیاہے تاکہ بندوق کے زورپر ان سے ووٹ ڈلوائے جائیں ۔

ترجمان نے کہا کہ بی این ایم کے مرکزی رہنما ڈاکٹر دین محمد بلوچ ریاستی اذیت خانوں میں ہزاروں تشددسہنے والوں میں سے ایک ہیں جنہیں آج پاکستانی عقوبت خانوں میں نو سال مکمل ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بازیابی کیلئے ان کی بیٹاں سمّی بلوچ اور مہلب بلوچ نے تاریخ ساز جدوجہدکی ہے ۔یہ بہادربچیاں پریس کلبوں کے سامنے احتجاج میں زندگی گزار کر بڑی ہوگئی ہیں۔ڈاکٹر دین جان کے خاندان نے بے پناہ مظالم سہہ لئے ہیں ۔ان کے دونوں گھروں کو لوٹنے کے بعد فوج نے قبضہ کرکے انہیں فوجی چوکی میں تبدیل کیاہے۔ڈاکٹر صاحب کی بچیاں طویل جدوجہد میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی کوئٹہ تا اسلام آباد ٹرین مارچ اورپیدل لانگ مارچ کا بھی حصہ رہیں مگر ان کی شنوائی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ پاکستان بلوچستان میں تمام انسانی حقوق کی اصولوں کو پامال کرکے بدترین دہشت گردی میں ملوث ہے۔ پاکستان کے یہ مظالم تمام بلوچ جہد کار اور ان کے خاندان دو دہائیوں سے سہہ رہے ہیں۔ بلوچ قومی آزادی کی جہد سے دستبردار کرانے کیلئے قابض ریاست مختلف طریقوں سے سیاسی کارکنوں کے خاندانوں کو نشانہ بنانا شروع کرچکے ہے۔ اس میں خواتین اور بچے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ حال ہی میں واشک اور جھاؤ کے مختلف علاقوں میں خواتین کو اغوا کرکے فوجی کیمپوں میں منتقل کرکے ان کی عصمت دری کی گئی۔ گوکہ ایسے واقعات نئی نہیں ہیں مگر اب اس میں نہایت شدت لائی گئی ہے۔ اس اجتماعی سزا کا مقصد بلوچ قومی تحریک کو کچلنا مقصود ہے مگر بلوچ عوام اور سیاسی کارکن سیسہ پلائی دیوار کی طرح دشمن کی تمام مظالم کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہمیں ڈاکٹر دین محمد جیسے
رہنماؤں کا لاپتہ ہونا اور کئی رہنماؤں کے شہید ہونے کا دکھ ضرور ہے مگر ہمیں یہ یقین ہے کہ ہم ان بیش بہا قربانیوں کے بدلے اپنا مقصد بلوچستان کی آزادی حاصل کرکے شہدا کے ارمانوں کی تکمیل کریں گے۔ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بازیابی اور اس مسئلے کو دنیا میں متعارف کرانے کیلئے بی این ایم نے آج سوشل میڈیا

#SaveDrDeenMohdBaloch

کے ہیشٹیگ سے ایک مہم چلائی، اس میں حصہ لینے والے تمام صارفین کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز