کوئٹہ ( ہمگام نیوز ) بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ بلوچستان میں دن بدن حالات کشیدگی کی جانب لے جائے جا رہے ہیں۔ گوادرسے پرامن طور پر بیٹھے مقامی مظاہرین پر پولیس تشدد اور بعدازاں احتجاج کیلئے نکلنے والے خواتین و بچوں پر فورسز کی جانب سے تشدداور انہیں تذلیل کا نشانہ بنانا ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک اور کیچ ہی کے علاقے تجابان میں گھروں پر فائرنگ جس سے ایک خواتین کی زخمی ہونے کا واقعہ اور دریں اثنا ڈیرہ بگٹی میں گزشتہ کئی عرصے سے مقامی سیاستدان کے ایماءپر عام لوگوں سے بھتہ وصول کرنا اور بھتہ نہ دینے والوں کو سنگین قسم کی دھمکیاں دینے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اور یہ تمام واقعات ایک مرتبہ پھر بلوچستان میں حالات کو مزید کشیدہ کرنے کی کوششیں ہیں جن کا بنیادی مقصد بلوچستان کے عوام کو شہریوں کے بنیادی حقوق سے محروم کر دینا اور لاقانونیت کو بلوچستان بھر میں پھیلانا مقصود ہے۔
ترجمان نے کہا کہ گوادر میں ایک مرتبہ پھر ترقی کے نام نہاد دعویٰ دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں ، جس علاقے کو کچھ سال پہلے سنگاپور بنانے کے دعویٰ کیے جا رہے تھے آج کچھ سال کے اندر ہی مقامی افراد سے جینے کے تمام حقوق چھین لیے گئے ہیں اور فورسز کے ایماءپر آئے دن مقامی افراد کو تنگ کرنے کے مختلف طریقہ کار اپنایا جاتا ہے۔ گوادر سے مظاہرین کو گرفتار کرنا، انہیں جیل میں بند کر دینا، عوام پر فائرنگ، ان کا تذلیل کرنا ایک بار پھر واضح کر دیتا ہے کہ مقامی افراد کو گوادر سے نکالنے کی تمام کوششیں کی جا رہی ہیں جبکہ دوسری جانب تجابان میں ایک خواتین کو فائرنگ کا نشانہ بناکر زخمی کر دیا گیا ہے یہ پہلی مرتبہ نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی اس علاقے میں مقامی افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے اور کئی مرتبہ مقامی افراد نے فورسز کو مقامی آبادی سے نکالنا کا مطالبہ کیا ہے مگر مقامی افراد کے اندر سے کیمپ نکالنے کے بدلے علاقہ مکین کو مسلسل خوف و ہراس کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور عام لوگوں کو تشدد، فائرنگ اور دیگر مظالم کا سامنا ہے جسے فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ دریں اثناءڈیرہ بگٹی کے علاقے شم پھیلاوغ کے علاقے میں کرفیو جیسا سماں پیدا کیا گیا ہے، عام عوام کی آمد و رفت کا سلسلہ مکمل طور پر بند کیا گیا ہے اور علاقے کو ضلع سے مکمل طور پر کاٹ دیا گیا ہے جبکہ ایک مقامی سیاستدان کے ایماءپر لیویز فورسز کی جانب سے علاقہ مکین سے بھتہ وصول کیا جا رہا ہے اور نہ دینے والوں کو سنگین قسم کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں ، ان افراد کو مقامی طور پر حکومت کی سرپرستی حاصل ہے جنہوں نے مقامی آبادی کی زندگیوں کو اجیرن بنا دی ہے۔ مقامی افراد سے 25سے 75ہزار لیا جا رہا ہے جو ان کے بس کی بات نہیں ہے مگر انہیں مسلسل ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ریاست کی زمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام کو تحفظ دیں مگر بدقسمتی سے بلوچستان کو الٹا چلایا جا رہا ہے اور مقامی افراد کو تحفظ دینے کے بدلے ریاستی ادارے مقامی افراد کو تنگ کرنے اور ہراساں کرنے میں مصروف ہیں۔
ترجمان نے بیان کے آخر میں کہا کہ گوادر سے حراست میں لیے گئے پرامن مظاہرین کو چھوڑ دیا جائے جبکہ تجابان سے فورسز کے کیمپ کو مقامی آبادی کے اندر سے اٹھایا جائے جس سے لوگ خوف و ہراس میں مبتلا ہیں جبکہ حکومتی افراد کی سرپرستی میں ڈیرہ بگٹی کے علاقے شم پھیلاوغ میں بھتہ وصولی کے عمل کو جلد از جلد ترک کیا جائے ۔ بلوچ عوام کے ساتھ جاری اس ناروا سلوک کو بند کیا جائے جس سے نفرت میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔