گذشتہ دنوں افغانستان کا دارلحکومت کابل ایک دفعہ پھر دہشت گردی کے بدترین حملوں کا شکار رہا جہاں مختلف دھماکوں میں 50 سے زائد افراد ہلاک اور 400 سے زائد زخمی ہوئے ہیں ، یہ 2002 کے بعد کابل میں دہشت گردی کا بدترین واقعہ ہے ۔ ان دہماکوں کے بعد افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ملک کے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے ۔ کابل میں جمعے کو روز ہونے والے ان دہشت گردانہ واقعات کا آغاز شاہ شاہد نامی علاقے میں ایک زور دار کار بم دھماکے سے ہوا جس میں موقع پر ہی 15 سے زائد افراد جانبحق اور قریباً 300 زخمی ہوئے۔ اس دھماکے کے چند ہی گھنٹے بعد دوسرا دہشت گردانہ کاروائی اس وقت ہوا جب ایک خود کش حملہ آور نے کابل کے ہوائی اڈے کے شمالی علاقے میں پولیس کے تربیتی مرکز کے باہر خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا جس کی وجہ سے اس حملے میں 30 سے زائد پولیس کے زیر تربیت اہلکار جانبحق ہوئے ۔ ان حملوں کے بعد تیسرا بڑا حملہ کابل میں واقع خصوصی امریکی فورسز کے اڈے پر ہوا ، جہاں ایک گھنٹے تک جاری جھڑپ میں نیٹو نے دعویٰ کیا ہے کہ دو حملہ آور مارے گئے اور ساتھ میں ایک غیر ملکی فوجی اور تنظیم کے آٹھ علاقائی کنٹریکٹر مارے گئے۔
ماہرین ان حملوں کو مختلف زاویوں سے دیکھ رہے ہیں ، کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ حال ہی میں ملا عمر کے موت کے خبر کے بعد طالبان ان حملوں سے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ ابھی تک کمزور نہیں ہوئے جبکہ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان حملوں سے طالبان کا ملا عمر کے بعد قیادت کے رسہ کشی اور تنظیم کے اندر اختلافات کے خبروں اور جھگڑوں کو چھپانا مقصود ہے ، یاد رہے ملا عمر کے موت کے بعد طالبان کے قیادت میں رنجشیں شروع ہوگئیں ہیں انہیں رفع کرنے کے غرض سے ہی گذشتہ دنوں افغان طالبان کی طرف سے ایک ویڈیو شائع کی گئی ہے، جس میں طالبان اراکین کو ملا منصور اختر سے بیعت لیتے ہوئے دِکھایا گیا ہے ۔ تاہم کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے جو گذشتہ طویل عرصے سے افغانستان میں بد امنی اور دھماکوں میں بذریعہ طالبان ملوث رہا ہے ، مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک طرف پاکستان اشرف غنی حکومت پر اپنا دباو قائم رکھنا چاہتا ہے اور دوسری طرف وہ یہ بھی ظاھر کرنا چاہتا ہے کہ ملا عمر کے بعد بھی اسکے طالبان پر کنڑول پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے اور اب تک افغان طالبان یا کوئٹہ شوریٰ انکے تابع ہیں اور وہ جب بھی چاہیں اور جہاں بھی چاہیں طالبان کو افغانستان میں اپنے مفادات کیلئے استعمال کرسکتے ہیں ۔اس حوالے سے کئی افغان سیاستدان اور بیوریو کریٹ اشرف غنی کے پالیسیوں پر کڑی تنقید کررہے ہیں کہ ایک طرف پاکستان بار بار افغانستان کو خون سے نہلا رہا ہے لیکن دوسری طرف ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے بجائے اشرف غنی بے سود مذاکرات اور اچھے تعلقات پر مصر ہیں ، وہ بار بار پاکستان کے مذاکرات کو ڈرامہ اور پِیٹ میں چھرا گھونپنے سے تشبیہہ دیتے رہے ہیں ۔ پاکستان طویل عرصے سے افغانستان میں بھارتی سرمایہ کاری اور اور اثر کو روکنے اور اپنا کنڑول قائم رکھنے کیلئے طالبان کو افغان حکومت کے خلاف بطور ایک بلیک ملینگ استعمال کرتا آرہا ہے ، بہت سے دھماکوں جن میں کئی اہم افراد بھی نشانہ بنے کا ذمہ دار واضح طور پر پاکستان کو قرار دیا گیا ہے ، ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا مقصد یہ ہے کہ وہ طالبان کے ذریعے افغان حکومت کو مجبور کردیں کہ وہ بھارت کو افغانستان میں مضبوط ہونے نا دے اور ساتھ میں افغانستان میں بھارتی سرمایہ کاری اور ایران میں چاہبار پورٹ کے منصوبوں کو کسی طور روکیں ۔ کئی مغربی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان دھماکوں سے ملا منصور اختر یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ امریکہ سے کوئی مذاکرات نہیں کریں گے گذشتہ دنوں ان کا ایک بیان بھی سامنے آیا تھا جس میں ملا منصور نے واضح طور پر پر امن مذاکرات کو مسترد کیا تھا ۔
بلوچ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ گذشتہ طویل عرصے سے پاکستان نے افغانستان کا امن تباہ کردیا ہے اور اپنے پراکسی گروپس کو افغانستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال کررہا ہے جو نا صرف افغانستان بلکہ بھارت کے مفادات کیلئے بھی ایک بہت بڑا چیلینج ہے ، انہوں نے مزید کہا ہے کہ اگر افغان حکومت اور بھارت بلوچوں کی کھلے بندوں بھرپور انداز میں مدد کریں تو بلوچ پاکستان کے ان توسیع پسندانہ اور دہشت گردانہ عزائم کے سامنے ایک دیوار بن سکتے ہیں اور ایک آزاد بلوچستان خوشحال افغانستان کی ضمانت ہو سکتا ہے ۔