کابل (ہمگام نیوز) کابل کے پولیس چیف عبدالرحمان رحیمی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کابل میں ہونے والے خود کش حملے کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی تھی۔یہ خود کش حملہ منگل کے روز کابل میں افغان خفیہ ادارے کے دفتر کے قریب کیا گیا تھا۔ اس حملے میں 64 افراد ہلاک ہو گئے تھے جب کہ تقریباﹰ 350 لوگ زخمی بھی ہوئے تھے۔ عبدالرحمان رحیمی کا کہنا تھا کہ یہ حملے حقانی نیٹ ورک کی جانب سے کیے گئے تھے۔ حقانی نیٹ ورک ماضی میں بھی افغانستان میں دہشت گردی کی کئی کارروائیوں میں ملوث رہا ہے اور وہ مبینہ طور پر پاکستان کی حدود میں موجود ہے۔ اسلام آباد نے کابل انتظامیہ کی جانب سے لگائے گئے ان الزامات کا فی الحال کوئی باقاعدہ جواب نہیں دیا۔افغانستان اور پاکستان ماضی میں بھی ایک دوسرے پر شدت پسندوں کی پشت پناہی کرنے کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔ افغانستان کی جانب سے یہ تازہ الزامات ایک ایسے وقت لگائے گئے ہیں جب کہ امریکا، چین، پاکستان اور افغانستان مشترکہ طور پر طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ کابل حملہ طالبان کی جانب سے موسم بہار میں شدت پسندی کی کارروائیوں میں مزید اضافہ کرنے کے اعلان کے بعد ہوئے اور اِن کی وجہ سے چاروں ممالک کی جانب سے کی جانے والی مصالحتی کوششوں کو شدید دھچکا پہچا ہے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی امور کے ماہر فدا خان نے میڈیا کو بتایا کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ مصالحتی عمل اب ختم ہو چکا ہے۔‘‘دوسری جانب افغانستان کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ہفتے کی شب پانچ طالبان جنگجو اس وقت مارے گئے جب انہوں نے افغانستان کے مغربی صوبے فراہ میں ایک فوجی کیمپ پر حملہ کرنے کی کوشش کی