کابل( ہمگام نیوز ) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک کی رپورٹ کے مطابق افغان دارالحکومت کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر فائرنگ کے ایک دن بعد داعش نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ۔ اسلام آباد نے ہفتہ 3 دسمبر کو اس واقعہ کو “قاتلانہ اقدام” قرار دیا تھا۔
انتہا پسند گروپوں کی نگرانی کرنے والی ویب سائٹ ’’SITE‘‘ کے مطابق داعش کی خراسان شاخ نے کہا ہے کہ ہم نے مرتد پاکستانی سفیر اور ان کے محافظوں پر حملہ کیا ہے۔ اس فائرنگ سے ایک سکیورٹی گارڈ زخمی ہوگیا ۔ اسے سینے میں تین گولیاں لگی تھیں۔
کابل پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ سکیورٹی فورسز نے قریبی عمارت پر چھاپہ مار کر ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کر لیا گیا اور اس سے دو ہلکے ہتھیار بھی ضبط کر لیے ہیں۔
تحقیقات کا مطالبہ
وزیر اعظم شہباز شریف نے واقعہ کی شدید مذمت کی اور تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
اگرچہ پاکستان نے افغانستان میں طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیاتاہم اگست 2021 میں اسلام پسندوں کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان نے کابل میں اپنا سفارت خانہ کھلا رکھا۔ پاکستانی سفارت خانے کے ایک اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ دوپہر کو اس کی بیرونی دیوار سے گولیاں چلائی گئیں۔
افغان وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس ’’ناکام حملے‘‘ کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ “اسلامی امارت شرپسند عناصر کو کابل میں سفارتی مشنوں کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دے گی ۔ سکیورٹی ایجنسیاں اس واقعے کی سنجیدگی سے تحقیقات کریں گی۔ قصورواروں کا پتہ لگانے کے بعد انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔”
بارڈرز اور پاکستانی طالبان
افغانستان میں طالبان نے اگست 2021 میں ملک سے امریکی اور غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد دوبارہ اقتدار سنبھال لیا ہے۔
پاکستان اپنی سرزمین پر مقیم دس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو رکھے ہوئے ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان غیر محفوظ سرحدیں ایک طویل عرصے سے کئی مسلح گروہوں کی آماجگاہ بنی رہیں۔ طالبان کی واپسی کے بعد سے بارڈرز پر کشیدگی بڑھ چکی ہے ۔ نومبر میں چمن سپن بولدک کراسنگ پر فائرنگ میں ایک پاکستانی گارڈ جاں بحق ہوگیا تھا، اس واقعہ کے بعد چمن باب دوستی ایک ہفتے تک بند رہا۔