خضدار (ہمگام نیوز) لاپتہ بلوچ فرزند کبیر بلوچ کی ہمشرہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہیکہ 27 مارچ کو کبیر بلوچ، مشتاق بلوچ اور عطاء اللہ کو سات سال کا طویل عرصہ مکمل ہورہا ہے لیکن وہ تاحال لاپتہ ہے بلکہ اس وقت بلوچستان سے 24 ہزار سے زائد فرزند لاپتہ ہیں جن میں خواتین ، بچے اور بوڑھے شامل ہے لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کے باعث انسانی المیہ جنم لے چکا ہے لیکن اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظمیں مجرمانہ خاموشی اختیار کرچکے ہیں۔ غیر ضروری چیزوں پر یہ ادارے نوٹس لیتے ہے لیکن بلوچستان میں ہزاروں افراد لاپتہ ہیں لیکن انصاف کے ان علمبرداروں کی کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اْنہوں نے مزید کہا ہیکہ اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی قوتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اپنی اپنی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں اور ان اداروں کی قیام بھی طاقتور قوتوں کے مفادات کی تحفظ کے لئے عمل میں لائی گئی ہیں۔ ایک طرف امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں اور ریاست کو ایف 16 طیاروں کی فراہمی دراصل مظلوم اقوام کو کچلنے کی سعی ہیں۔ عالمی قوتیں اپنی مفادات اور کاروبار کو انسانوں سے زیادہ مقدم اور عزیز سمجھتے ہیں۔ اْنہوں نے مزید کہا کہ ریاست گزشتہ کئی عرصے سے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھانک رہی ہیں۔ انتہاء پسند ی کے خلاف جو فنڈز اور ہتھیار اْنھیں فراہم کئے جارہے ہیں وہ ہتھیار بلوچ قوم سمیت دیگر مظلوم اقوام کی خلاف استعمال کی جارہی ہیں۔ اور بلوچوں کے گھروں کو بمباری کرکے تباہ کیا جارہا ہے لیکن انسانیت اور انصاف کے دعویدار قوتیں اور تنظیمیں چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ بلوچ و سندھی نوجوانوں کے مسخ شدہ لاشیں اْنھیں نظر نہیں آرہے۔ 24 ہزار سے زائد لاپتہ بلوچوں کے لئے آواز نہیں اْٹھایا جارہا پھر ان اداروں کی کوئی اہمیت و افادیت باقی نہیں رہتا بلکہ یہ ادارے اور تنظیمیں انسانی حقوق کے نام پر بزنس چلارہے ہیں۔ اْنہوں نے کہا کہ بلوچ ایکٹوسٹس کبیر بلوچ، عطاء اللہ اور مشتاق بلوچ سمیت دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے آواز بلند کرکے لاپتہ فرزندوں کے خاندانوں سے یکجہتی کا اظہار کریں۔