کیا برطانیہ اور پاکستان اپنے سیکیورٹی مفادات کے تحت اشتراک عمل قائم کریں گے؟
جنرل راحیل نے برطانوی حکام سے درخواست کی ہے کہ وہ لندن میں مقیم بلوچ آزادی پسندرہنما حیربیار مری کے خلاف کاروائی کرے
(اوین بینیٹ جانز)بی بی سی نیوز
پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ پاکستان افغان سرحد سے متصل اپنے علاقوں میں طالبان سے کوئی رعایت نہیں برتے گی ۔ اپنے تین روزہ لندن دورے کے موقع پر انہوں نے کہا ہے کہ ’’ آپریشن سردیوں میں بھی اسی طرح جاری رہی گی ، ہم ہرگز پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں گے ‘‘ پاکستان نے شدت پسندوں کے مضبوط گڑھ جنوبی وزیرستان میں آرمی آپریشن کا آغاز گذشتہ گرمیوں میں پشاور اسکول حملے سے کافی وقت پہلے ہی کرلیا تھا ، لیکن پاکستانی جنرل نے کہا ہے کہ ’’ بچوں پر حملے نے ہمارے حوصلوں کو مزید جوان کیا ہے ، ہم امید نہیں کررہے تھے کہ وہ بچوں پر حملہ کریں گے‘‘ ۔ جنرل شریف نے برطانوی وزیر دفاع مائیکل فالن کو بتایا ہے کہ افغان سرحد سے متصل علاقوں میں ’’ اب بس کچھ ہی شدت پسند بچے ہیں ‘‘ لیکن پشاور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگاروں اور صحافیوں کے مطابق شدت پسند ابھی تک زیادہ تر علاقوں پر مکمل کنٹرول رکھتے ہیں اور پاکستانی آرمی محض کچھ شہری علاقوں کو ہی صاف کرپایا ہے ۔
جس طرح پاکستان اپنے دشمنوں کی تشریح کرتا ہے اس پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ، جہاں پاکستان تحریک طالبان کے خلاف مکمل پر برسر پیکار ہے وہیں پنجابی مذہبی شدت پسند گروہ جیسے کہ لشکرطیبہ جس نے 2008 میں ممبئی پر حملہ کیا تھا مکمل آزادی کے ساتھ فوج کے مداخلت کے بغیر پاکستان میں آسانی سے گھوم رہے ہیں ۔غیر رسمی طور پر پاکستانی آرمی کے ذمہ دار کہتے ہیں کہ افغان سرحد پر اتنی جنگ چل رہی ہے کہ ان کیلئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ان پنجابی شدت پسند گروہوں سے مقابلہ کریں ، لیکن نقاد کہتے ہیں کہ پاکستانی آرمی کا ایسا کوئی ارادہ بھی نہیں ہے کہ وہ ان پنجابی شدت پسند گروہوں پر قابو پائے کیونکہ ان کو بنایا ہی بھارت پر حملہ کرنے کیلئے ہے۔اسی طرح کے خدشات افغان طالبان کے بارے میں بھی پائے جاتے ہیں کہ پاکستان کا یہ نرم رویہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کیلئے بھی ہے ۔ جنہیں 2011 میں اسوقت کے امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے چیئرمین مائیک مولین نے ’’ پاکستان کے طاقتوار ترین خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا ’’ حقیقی دایاں ہاتھ ‘‘ قرار دیا تھا ۔ باوجود اسکے کے ہر طرف پاکستان کے اچھے طالبان اور برے طالبان کے پالیسی پر شکیہ سوال اٹھ رہے ہیں جنرل راحیل اس بات پر اصرار کرتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان اپنی افغان پالیسی اب بدل رہا ہے اور وہ نیک نیتی سے کابل میں اشرف غنی کے قیادت میں ایک مضبوط حکومت دیکھنا چاہتے ہیں ۔
جہاں مذاکرات کے دوران پاکستان برطانیہ سے مزید اسلحہ اور تربیت کی درخواست کرتا رہا ، وہیں اس امر پر بھی بات ہوئی کے دونوں ممالک اپنے زمینوں پر موجود کچھ افراد کا تبادلہ کریں ۔ جنرل راحیل نے برطانوی حکام سے درخواست کی ہے کہ وہ لندن میں مقیم بلوچ آزادی پسندوں خاص طور پر حیربیار مری کے خلاف کاروائی کرے ۔ حیربیار مری کے بارے میں پاکستانی حکام کہتے ہیں کہ وہ بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ ہیں۔پاکستانی جنرل نے یہ درخواست کی ہے کہ بی ایل اے کو دہشتگرد تنظیموں کے فہرست میں شامل کیا جائے اور لندن میں مقیم اسکے سربراہوں کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے ۔ بی ایل اے ایک دہائی سے زائد عرصے سے بلوچستان میں ایک کھلی بغاوت کی قیادت کررہا ہے ۔ پاکستان کے طویل اور شدید فوجی کاروائیوں سے بی ایل اے کسی حد تک تو محدود ہوچکی ہے لیکن اسے ختم کرنے میں پاکستان مکمل طور پر ناکام رہا ہے ۔ حیربیار مری کو 2009 میں برطانوی عدالتوں نے دہشتگردی کے الزامات سے باعزت بری کیا تھا ۔اس وقت انسانی حقوق کے تنظیموں نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ حیربیار کو صرف پاکستانی فوجی لیڈر پرویز مشرف کے فرمائش پر گرفتار کیا گیا ،بہر حال حیربیار مری بے قصور پائے گئے اور اب یہ تقریباً ناممکن ہے کہ برطانوی حکام دوبارہ ایسی کوئی کوشش کریں گے ۔