دوشنبه, سپتمبر 30, 2024
Homeاداریئےگرینڈ آپریشن

گرینڈ آپریشن

گذشتہ دنوں بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے گوکدان میں بیس مزدوروں کو قتل کردیا گیا ، جس کی ذمہ داری ایک بلوچ مزاحمتی تنظیم نے قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہ مزدور مبینہ طور پر فوجی ادارے ایف ڈبلیو او کیلئے کام کررہے تھے اور فوجی نقل و حمل سے متعلق ایک اہم منصوبے کو پائے تکمیل تک پہنچانے کیلئے وہاں کام کررہے تھے ، اس حملے کو پاکستانی میڈیا نے خاص طور پر اچھال کر بلوچ قومی تحریک کو ایک رجعتی و ظالم تحریک گرداننے کی کوشش کرتے رہے اور اس بات کی تشہیر کرتے رہے کہ نہتے غریب مزدوروں کو قتل کیا گیا ہے لیکن اس واقعے کے پیچھے تسلسل اور بلوچستان کے حالات کے بابت حسبِ روایت پردہ پوشی کی گئی اور اس واقعے کے محرکات پر روشنی نہیں ڈالی گئی حالانکہ یہاں کچھ جواب طلب سوال سر اٹھاتے تھے کہ بلوچستان میں گذشتہ طویل عرصے سے بلوچ مزاحمتی تنظیموں نے جنگی حالات اور پاکستانی فوج کے عزائم کو پیش نظر رکھتے ہوئے غیر مقامی افراد و آبادکاروں کو وارننگ دی ہوئی ہے کہ وہ بلوچستان سے نکل جائیں اور پاکستانی فوج کے کسی ترقیاتی (فوجی) منصوبے میں شریک نا ہوں اسی مد میں کئی بار انہیں نشانہ بھی بنایا گیا ہے لیکن ان حالات کے باوجود پنجاب سے مزدوروں کو بلا کر بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں ٹھیکے دینا خود ہی کئی سوالات کو جنم دیتا ہے بلوچ قوم پرست حلقوں کی جانب سے یہ سوال بھی اٹھایا جاتا رہا ہے کہ ایسے وقت میں جب بلو چ مزدوروں کو کام نصیب نہیں ایسے عالم میں کن وجوہات کے بنا پر پنجاب سے مزدوروں کو بلاکر انہیں بلوچستان کے پر خطر اور دور دراز علاقوں میں کام پر لگایا جاتا ہے ، یہ الزامات بھی لگائے گئے ہیں کہ یہ وہ منصوبے ہیں جن میں پاکستانی فوج کی دلچسپی ہے کیونکہ ان منصوبوں کے تکمیل کے بعد فوج کو کسی بڑے آپریشن کیلئے نقل و حمل میں تیزی اور آسانی میسر ہوگی ۔
ان عوامل کو نظر انداز کرکے اس واقعے کی پرچار بربریت کے معنوں میں کرنے کی وجہ یہ تھی کہ پاکستانی میڈیا اس بات کی کوشش میں تھا کہ بلوچستان میں وسیع پیمانے کے ایک آپریشن کی راہ ہموار کرسکے جس کی تیاری کافی وقت سے کی جاتی رہی ہے اور اگلے ہی دن یہ اندازے حقیقت کا روپ دھارتے ہوئے نظر آئے اور پاکستانی فوج نے بلوچستان کے علاقے مکران میں گرینڈ آپریشن کا اعلان کردیا ، اس گرینڈ آپریشن کو روبہ عمل میں لاتے ہوئے اگلے دن پاکستان فوج نے ضلع کیچ کے ہی علاقے گیبن میں ایک بڑا فوجی آپریشن کرتے ہوئے کئی گھروں کو نذر آتش کرنے کے ساتھ ساتھ بمباری بھی کی اور میڈیا میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ بلوچ مزاحمتی تنظیموں کے ایک کمانڈر سمیت 13 سپاہیوں کو شہید کیا گیا ہے لیکن آپریشن ختم ہونے کے بعد جب علاقائی ذرائع سے اصل معلومات سامنے آنے لگے تو پتہ چلا کہ جس شخص کو پاکستانی فوج کمانڈر ظاھر کررہی تھی وہ حیات بیوس نامی ایک نوجوان بلوچ شاعر اور معذور شخص تھا جو کمر ٹوٹنے کے باعث دو سالوں سے ویل چیئر پر بیٹھا ہوا تھا، جس کے گھر پر چھاپہ مار کر پہلے اس گھر سے گھسیٹ کر باہر لایا گیا اور بعد میں اسکے والدہ کے آنکھوں کے سامنے فائرنگ کرکے اسے شہید کیا گیا ۔ باقی جن تیرہ افراد کو پاکستان فوج نے مارنے کا دعویٰ کیا تھا ان میں سے محض پانچ کی لاشیں تربت ہسپتال پہنچائی گئی فوجی ذرائع کا کہنا تھا کہ باقی لاشیں مزاحمت کار اٹھا کر لے گئے ہیں جبکہ علاقائی ذرائع کے مطابق ان پانچ افراد کے لاشوں کے علاوہ اور کوئی لاش دیکھی نہیں گئی اور یہ پانچ افراد بھی علاقائی نہیں تھے بلکہ ان کو پاکستان فوج اپنے ساتھ لایا تھا اور یہاں فائرنگ کرکے انہیں شہید کردیا ۔ بعد ازاں ان پانچ میں سے چار کی شناخت بلوچ لاپتہ افراد وں کی حیثیت سے ہوئی جن کے نام رسول جان ، دین محمد بگٹی ،یحییٰ اور ماسٹر اصغر کے نام ہیں ان افراد کو بلوچستان کے مختلف علاقوں سے گذشتہ سال پاکستانی خفیہ اداروں نے اغواء کرکے لاپتہ کردیا تھا ، یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستانی فوج نے لاپتہ افراد کو اس طرح جعلی مقابلوں میں آپریشن کا نام دیکر شہید کیا ہے بلکہ اسی ماہ کے اوائل میں عامر بلوچ اور قذافی بلوچ سمیت دو تادم نامعلوم لاپتہ بلوچوں کی لاشیں بلوچستان کے علاقے گوربرات میں پھینکی تھی اور اس سے پہلے بلوچستان کے مکران و ڈیرہ بگٹی کے علاقوں میں ایسے واقعات تواتر کے ساتھ دیکھنے کو ملے ہیں کچھ واقعات میں لاپتہ بلوچوں کو دورانِ آپریشن ہیلی کاپٹروں سے نیچا گراکر شہید کیا گیا ہے ، مبصرین کا کہنے ہے کہ پاکستان کے اس حکمت عملی کی وجہ یہ ہے کہ بلوچ لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کے بابت عالمی سطح پر بننے والے دباو کو رفع کرنے کی خاطر اب پاکستانی فوج جعلی مقابلوں کے ذریعے لاپتہ بلوچوں کو شہید کرنا چاہتا ہے ۔
یوں تو بلوچستان میں گذشتہ طویل عرصے سے پاکستانی فوج کا غیر اعلانیہ آپریشن زور و شور سے جاری ہے اور آئے روز مختلف بلوچ قصبوں و شہروں پر چڑھائی کرکے ظلم و بربریت کی نئی داستانیں رقم کی جاتی ہیں لیکن اس اعلانیہ گرینڈ آپریشن کی کڑیا ں چینی صدر کے دورہ پاکستان سے بھی جوڑی جارہی ہیں جو متنازعہ گوادر پورٹ پر ہونے والے معاہدات پر دستخط کرنے آرہے ہیں ۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس گرینڈ آپریشن سے ایک طرف پاکستانی فوج چین کو اپنی کارکردگی دِکھا کر خوش رکھنا چاہتا ہے اور یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ چین کے عسکری و مالی کمک سے وہ بلوچ مزاحمت کاروں پر قابو حاصل کرپائیں گے جو گوادر پراجیکٹ کے خلاف ہیں اور دوسری طرف و ہ اس دورے کے دوران کسی بھی ممکنہ حملے کو پسپا کرنے کی خاطر اپنے فوج کو متحرک رکھنا چاہتے ہیں ۔
اب تک پاکستانی فوج کے اس گرینڈ آپریشن میں دیکھا گیا ہے کہ لاپتہ بلوچوں کے لاشوں کے انبار لگائے گئے ہیں اس لیئے انسانی حقوق کے بلوچ کارکنان اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں لاپتہ بلوچوں کے جان کو شدید خطرات لاحق ہونگے اور اس گرینڈ آپریشن کا مقصد لاپتہ بلوچوں کے لاشوں کا گرینڈ انبار لگانا ہی ثابت ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز