Homeآرٹیکلزگھر سے لیکر پہاڑوں تک کا سفر | چاکر بولانی

گھر سے لیکر پہاڑوں تک کا سفر | چاکر بولانی

تحریر: چاکر بولانی

ہمگام آرٹیکل

 

میں تقریباً 8 سے 9 سال کا تھا جب پڑهائی کا رخ کیا پہلے تو بہت مشکلات کا سامنا رہا، غربت کی وجہ سے پھر وقت کے گزرنے کے ساتھ حالات کچھ بہتر ہوئے تو پڑھائی شروع کی، کچھ اسکول سے سیکھا اور کچھ کتابوں سے اور کچھ اُستادوں سے پھر کچھ وقت سے وقت نے ہر مشکل حالات سے پھیرنا سکھایا بہت کچھ پہاڑوں سے سیکھا کیوں کہ وہاں ہر لمحے سے نئی واقفیت ہوتی اور سبق سیکھنے کو ملتا، ہر ایک کے مزاج سے چلنا بہت بڑھا مشکل کام ہے کیوں کہ وہاں کہ لوگ بہت مختلف کے مزاج کے لوگ ہوتے ہیں مگر وفا، مہر اور حوصلہ وہاں سے ختم ہوتا ہے جب کوئی مشکل وقت کسی دوست کے اوپر آئے تو سب اپنی کوششوں سے مصرف ہوتے ہیں کیوں کہ سب پریشان ہوتے ہیں ایک دوست کے لئے اس لئے کہتے ہے کہ دوست بھائی اور فیملی کا درجہ رکھتا ہے، بیمار یا پریشان دوست کو یہ محسوس نہیں کرنے دیتے کہ میں تنہا ہوں یا تنہا تھا پھر وہ پریشان دوست باقی دوستوں کو تسلی دیتا ہے کہ میں بلکل ٹھیک ہوں آپ پریشاں مت ہوجائے، دو چیز ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایک جیل کا دوست اور دوسرا سنگر یا پہاڑوں کا دوست ہمیشہ یاد ہوتا ہے آپ جہاں پر بھی ہوتے ہو یہ دوست یاد رہتے ہیں کیوں کہ یے آپ کے سخت حالات کے ساتھی ہوتے ہیں، سخت وقت انسان کو ہمیشہ یاد رہتا ہے اور جو باقی وقتوں سے الگ ہوتا ہے کیوں کہ اچھے وقت میں سب آپ کے ساتھ ہوتے ہیں اور سخت حالات میں بہت کم ساتھی ہی کسی کے ساتھ رہتے ہیں، ساتھی جو بھی ہو اپنا بھائی ہو یہاں چاہنے والا ہو آپ کے اوپر حالات اچھے ہو تو سب آپ کے ہوتے ہیں اگر حالات نے کچھ سختی کی طرف رخ کیا تو اپنے بھی بھاگ جاتے ہیں۔ ایک آپ اور دوسرا وہ جو آپ کی کامیابی چاہتا ہے وہ آپ کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتا ہے وہاں جا کر بہت سے دوستوں کو دیکھ کر انسان حیران ہوجاتا ہے۔

 

شہید قاسم عرف بابر وہ انسان تھے ہر وہ ساتھی کے ساتھ دیتا تھا جو کمزور تھے اور اس کو کبھی بھی یہ چیز پسند نہیں تھی کہ کوئی ساتھی کسی کو کہے کہ یہ ساتھی کمزور ہے اور اس کا ساتھ دے کر وہ مقام پر پہنچاتا ہے جو وہ کر نہیں سکتا لیکن کرکے دکھاتا کہ آپ لوگ کوشش کریں انسان سب کچھ کرسکتا ہے مگر حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے کبھی بھی اپنا حوصلہ کو پست مت کرو حوصلہ ہی وہ چیز ہے ناممکن چیز کو بھی آپ جیت سکتے ہو ایک اور چیز کو ہمیشہ نوٹ کرتا تھا یہاں کوئی ساتھی پریشان ہوتا تو اس کو ہر حال میں مسکراتا تھا اور اس کو یے کبھی محسوس کرنا نہیں دیتا کہ آپ پریشان ہو پھر کبھی اس کو اکھیلا نہیں چھوڑتا اس ساتھ مزاق و مجلس کرتا یا کوئی کاموں میں مصروف کرتا کے پریشانی دور بھاگ جاتا۔

 

 ایک اور ساتھی شہید نصرت عرف آصف بھی وہ سادہ لوح ساتھیوں میں سے ایک تھا محنت کشی اور بہادری میں ایک پہاڑ اور سادگی میں ایک درویش تھا اپنا کام بلکل کسی کو کرنے نہیں دیتا، کیسے بھی حالات ہوتے اپنا کام خود کرتا کیوں کہ اس میں یہ بات تھی کہ میں یہاں اس کاموں کے لئے آیا ہو یہاں تو اپنا کام کسی بھی ساتھی کو کرنا نہیں ہے بلکہ خود کرنا ہے۔

 

 ایک اور ساتھی شہید گہمرخان عرف گرا کے ساتھ فون پر باتیں ہوئی تھی وہ ایک خوش مزاج اور مہربان ساتھی تھے اور اس کی تعریف ہمیشہ ساتھیوں نے کی ہے کہ وہ بہادر دوست کئی بار سرکاری لوگوں نے فون کرکے دھمکیاں دیں کہ آپ سرنڈر ہوجاؤں اور اس کا کہنا ہمیشہ یہی تھا کہ ماں نے مجھے ایسی لولی نہیں سنائی وہ ہمیشہ بہادری کی لولی سناتی تھی میں مر سکتا ہو مگر سرخم تسلیم۔ہرگز نہیں ہوسکتا ہوں بلوچ کبھی بھی ہتھیار نہیں ڈالتا ہے۔ آخری دم تک انکا موقف یہی تھا کہ آپ کو جو کرنا ہے کرلو میری منزل صرف آزادی ہے” پھر فون کو کٹ کرتا۔

 

 ایک اور ساتھ شہید شادی خان عرف کوڑا ایک سادہ مزاج کا انسان تھا، اس کو پہلی بار سمجھ لینا بہت مشکل تھا کہ کس طرح کا مزاج رکھتا ہے، اس کا پہلی بار دیکھا تو بہت خاموش رہتا تھا ہر کسی کو اسکے ساتھ مزاق کرنا پھڑتا تھا پھر بھی وہ خاموش رہتا آہستہ آہستہ وہ بھی کھلنے لگے تھے کہ دوست مزاق تو کر رہے ہو آپ کے پاس اتنا برداشت ہے کوئی آپ پر مزاق کرے جی ہاں سنگت کیوں نہیں پھر وہ بھی توڑا سا مشتاق کرنا شروع کردیتا تھا پھر وہ دوسرا ساتھی اتنا حیران رہے جاتے ہے کہ کتنا اچھا دوست ملا ہم کو پھر ہمیشہ اس کے آس پاس رہنا پسند کرتے رہتے۔  

 

آخر میں دوستوں سے معزرت چایتا ہے کہ کوئی بات اگر کسی کو بری لگی یا غلط سمجھا ہے تو میں معزرت چاہتا ہوں میرے کہنے سےکسی بھی دوست کو کمزور کرنا یا برا کہنا مناسب نہیں سمجھتا بس دوستوں کا ٹائم پاس کرنا تھا توڑا مزاق کیا معاف کرنا ہر دوست کی کہانی اتنی لمبی ہوتی ہے اور میٹھے حالات کے مطابق کچھ لکھنا تھا وہ لکھ لیا مگر بہت اچھے ہوتے ہے دوستوں اور شہدا کی کہانیاں جتنا کرے اتنا ہی کم ہے۔ کچھ کہ نہیں سکتے اور کچھ لکھ نہیں سکتے۔ جب بھی دوستوں کے کہانیاں یاد آتے ہے تو اپنے آپ کو انسان روکھ نہیں سکتا ہے کہ ہم عظیم شہیدوں کو یاد کریں۔ ہمارے پہاڑوں کا نرمزارو کو اس سرد ہوؤاں اور لمبی راتوں کو تکھا ہوا چھروں کو سرخ سلام ہے۔

Exit mobile version