انسانی گروہوں، ممالک، اقوام، تہذیبوں اور مذاہب کے درمیان ہونے والی ہر جنگ (جس کی بنیاد سیاسی ہو، معاشی ہو یا توسیع پسندانہ) بلا جواز و بلا سبب نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کے پس پشت حقائق و وجوہات ہوتی ہیں۔ کہیں قومی مقاصد، قومی آزادی اور نظریاتی و فکری بنیادیں کار فرما ہوتی ہیں، تو کہیں مفاداتی مقاصد، توسیع پسندانہ عزائم، معاشی فوائد، لوٹ کھسوٹ اور استحصال۔ تاریخی طور پر اپنے جداگانہ قومی تشخص، تہذیب، ثقافت اور سرزمین سے وابستگی کا ادراک اور قبضہ گیر کی جانب سے ان کے خاتمے کی کوششوں کی سوجھ بوجھ محکوم و زیر تسلط قوم کو نفسیاتی طور پر نہ صرف انتہائی حد تک متاثر کرتے ہیں، بلکہ یہ شعوری ادراک ان کو قومی تشخص کی بقاء اور قومی آزادی کے حصول کیلئے اکساتا ہے۔ جس کی وجہ سے قومی بنیادوں پر قبضہ گیر اور محکوم قوم کے درمیان تصادم شدت اختیار کرلیتا ہے۔ اگر تاریخ کے صفحات کی چھان بین کی جائے، تو انسانی مفادات کے حصول، لوٹ مار کیلئے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل اور سیاسی، معاشی و استحصالی حربوں کے سبب دنیا اس روز سے تاحال جنگوں کی لپیٹ میں رہا ہے۔ جس روز سے انسان نے ملکیت کے تصور کا ادراک کیا تھا۔ اور جب تک ان استحصالی حربوں کو بروئے کار لایا جاتا رہے گا۔ دنیا سے جنگی جنون کا خاتمہ ناممکن ہے۔کیونکہ ان ہی مفاداتی و استحصالی حربوں اور اسباب کی وجہ سے ہی محکوم، مظلوم اور زیر تسلط اقوام قبضہ گیر کی جبر و استبداد کی چکی میں پستے رہے ہیں۔ اور جس نے قبضہ گیر و زیر تسلط اقوام کے درمیان تضادات کو ابھارا ہے۔ اور ان ہی تضادات کی وجہ سے محکوم اقوام نے آزادی کا علم بلند کیا ہے۔ بقول فرانز فینن “استعمار کی شکست ایسی دو قوتوں کے یکجا ہونے سے عمل میں آتی ہے۔ جو اپنی ماہیت کے اعتبار سے متضاد ہوں۔ یہ صورت حال ان حقائق کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، جو کسی نوآبادی میں پیدا ہوتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔ ان دو قوتوں کا پہلا ٹکراؤ ہی تشدد اور ان کی باہمی موجودگی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یعنی نوآبادکار کا مقامی باشندوں کا استحصال۔ اور یہ استحصال صف در صف بندوقوں اور توپوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ یہ نہایت وحشیانہ قسم کا تشدد ہوتا ہے۔ اور محض اس وقت گھٹنے ٹیکتا ہے۔ جب اس کا مقابلہ زیادہ بڑے تشدد سے ہو۔”
بیسویں صدی کی آخری دہائی اور اکیسویں صدی کی آمد آمد کے دوران نئی پنپنے والی صف بندیوں، گریٹ گیم اور مستقبل کے بدلتے سیاسی و معاشی حالات کے ادراک کو لیکر بلوچ قوم کے فرزندوں نے اجتماعی قومی مقصد اور نئے امکانات کے تحت پاکستان کی قبضہ گیریت اور بلوچ سماجی حقائق کے شعوری تضادات کو ابھار کر قومی آزادی کی تحریک کے بیرک کو بلند کرتے ہوئے جدوجہد کو سیاسی و مسلح محاذ پر منظم کیا۔ اس عملی کردار میں سنگت حیربیارمری کی مخلصانہ کوشش و کردار پیش پیش تھی۔ ابتدائی طور پر منظم انداز، باہمی اشتراک و تعاون اور متحدہ جدوجہد کی وجہ سے بلوچ قومی تحریک نے کامیابیاں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی توجہ بھی حاصل کی۔ پاکستانی استحصال و وحشیانہ تشدد کا جواب بھی دیا گیا۔ اس سیاسی جدوجہد اور مسلح محاذ پہ منظم جنگ کی وجہ سے قوم کو آزادی کی شعوری آگہی بھی حاصل ہوئی۔ لیکن صد افسوس کہ بلوچ انا پرستی نے اس منظم جدوجہد میں دراڑیں ڈال دیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ دشمن نے اپنی حکمت عملیوں، حربوں، وحشیانہ تشدد، استبداد اور اس قومی موومنٹ کو کاؤنٹر کرنے کے لیے اپنے طریقہ کار و پینتروں میں تبدیلی، تیزی اور مخصوص طریقہ اپنایا۔ ڈیتھ اسکواڈز، مخبری کے مختلف طریقہ کار اور آزادی پسند سیاسی و مسلح جہد کاروں کی کمزوریوں و بلوچ انا پرستانہ نفسیات سے فائدہ اٹھا کر بلوچ قومی تحریک آزادی کی جدوجہد کو نقصان پہنچانے اور اپنے وحشیانہ تشدد میں تیزی لانے کے ساتھ جدوجہد کو دیوار سے لگا دیا۔ لیکن دوسری جانب بلوچ آزادی پسند قوتوں نے اپنی حکمت عملیوں میں کوئی تبدیلی نہیں لائی۔ نہ ہی دشمن کے چالوں کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ابتداء میں بلوچ آزادی پسند قوتوں نے جنگ کے رخ کو شہروں کی جانب موڑ کر کافی حد تک جو کامیابی حاصل کی تھیں۔ دشمن نے جہد کاروں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اس نیٹ ورک کو بھی توڑ دیا۔ بدقسمتی سے بلوچ قوم کی انا پرستی، لیڈر شپ کی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور پگڑی اپنے سر بندھوانے کی کوششیں اس کی بنیادی وجہ بنیں۔ اور گروہی، علاقائی اور قبائلی سوچ کی وجہ سے بلوچ قومی تحریک آزادی نرگسیت کا شکار ہوا۔ آزادی پسندوں نے دشمن کے خلاف اپنی قوت استعمال کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں اپنی قوت استعمال کی۔ جس سے دوریاں بڑھتی رہیں۔ اتحاد پارہ پارہ ہوا۔ یہ فاصلے بڑھ کر علحیدگی اور ڈیڑھ اینٹ کی مسجدوں میں بٹ گئیں۔ اور بلوچ قومی تحریک آزادی کی اس سے قبل ہونے والی جدوجہد و جنگوں کا جو انجام ہوا تھا۔ اب ایک بار پھر قومی تحریک اسی جانب بڑھنے لگی ہے۔ جس کی وجہ سے بلوچ قوم مایوسی کی دلدل میں دھنس رہا ہے۔
وطن کی محبت، ہم وطنوں کی الفت، قومی حقوق و آزادی کیلئے لڑی جانے والی جنگ اور سیاسی جدوجہد جو قبضہ گیر پاکستان کی بیرونی مداخلت اور جبر و استحصال کے خلاف مزاحمت بن کر ابھری تھی۔ موجودہ بدلتی صورتحال، عالمی سطح پر نئی ابھرنے والی صف بندیوں اور خطے میں بدلتے نئے تقاضوں کے مطابق یہ قومی جدوجہد آزادی و تحریک ایک منظم قوت بن کر ابھرنے اور عالمی برادری کو “بلوچ قومی مسئلہ” کی جانب متوجہ کرنے اور بلوچ قومی آزادی کی راہ ہموار کرنے کی بجائے انا پرستی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اس موجودہ صورتحال کو بھانپتے ہوئے حیربیارمری نے ایک بار پھر پہل کرتے ہوئے تمام بلوچ آزادی پسند قوتوں کو متحد ہوکر منظم انداز میں قومی جہد آزادی کو آگے بڑھانے کی تجویز پیش کی۔ لیکن تاحال اس سلسلے میں دوسری جانب سے کوئی خاص پیش رفت سامنے نہیں آ رہی ہے۔ ماسوائے اخباری بیانات کے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انا پرستی کا یہ خود ساختہ خول جو آزادی پسندوں کے گرد مکھڑی کے جھال کی طرح بھنا ہوا ہے، اتنا ہی مضبوط ہے کہ قومی تقاضوں اور ضرورت کے باوجود اس سے باہر نکلنا ممکن نہیں؟ تو پھر بلوچ قوم کے فرزند ان آزادی پسندوں سے شہیدوں کے خون اور بلوچ قوم پر ہونے والی جبر کے احتساب اور سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اس لئے اس دن سے بچنا چاہئے جب بلوچ فرزندوں کے ہاتھ آزادی پسندوں کے گریبانوں تک پہنچیں۔