Home اداریئے ہزارہ برادری کی تازہ قتل عام کے پیچھے ریاستی عزائم؟

ہزارہ برادری کی تازہ قتل عام کے پیچھے ریاستی عزائم؟

0

ہمگام:اداریہ

گذشتہ اتوار مچھ کے کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے ہزارہ برادری کے گیارہ کے قریب نہتے مذدوروں کو قبضہ گیر پاکستان کے پالے ہوئے مذہبی انتہا پسندوں نے ان میں سے چند کو اغوا کرکے تھوڑی دور پہاڑی علاقے میں لے جاکر گولیاں مار کر ہلاک اور باقی ماندہ کے ہاتھوں پاوں باندھ کر ان کے آنکھوں پر پٹی باندھ کر انھیں ہلاک کردیا ہے۔

پاکستان جو دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کی پاداش میں اربوں ڈالر لے کر ہڑپ کرگیا ہے، وہ در اصل دہشت گردی کا سرغنہ ہے، انتہا پسندی، دہشت گردی پاکستانی فوج کی منافعہ ترین پیشہ ہے، راولپنڈی شروع سے ہی دہشت گردی کو ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے حسب معمول ویسٹ اور دیگر عالمی برادری کو بلیک میل کرتی رہی ہے۔

رواں ہفتہ ہونے والے ہزارہ کمیونٹی کی قتل عام کے پیچھے کیا محرکات کارفرما ہوسکتے ہیں؟

موصول ہونے والے اطلاعات کے مطابق قابض پاکستانی فوج نے ہرنائی اور مضافاتی علاقوں ، سبی، شاہرگ، سانگان، مچھ، پیر اسماعیل، میں بڑے پیمانے پر فضائی اور زمینی کاروائی کا آغاز کررکھا ہے، اس حملے کے فورا بعد ریاستی چاپلوس اور آئی ایس آئی کا دست راست سرفراز بگٹی نے اپنے ٹوئیٹر اکاونٹ میں بلوچ آبادی کے خلاف فضائی کاروائی کا مطالبہ بھی کردیا تھا۔

آمدہ رپورٹس کے مطابق پاکستانی فوج اور فضائیہ نے مذکورہ بالا بلوچ آبادی پر آتش و آہن برپا کررکھا ہے جس میں وسیع پیمانے پر پنجابی فوج جنگی جرائم کا ارتکاب ہو رہی ہے، بلوچ علاقوں میں فوج گھر گھر تلاشی مہم شروع کرچکا ہے، لوگوں کے گھروں میں کھانے کے زخیرہ مواد کو جلایا جارہا ہے، چادر چار دیواری کی پائمالی کے ساتھ ساتھ نہتے لوگوں کی جبری گمشدگی وقوع پزیر ہورہی ہے۔

پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کئی ہائیوں سے اس کوشش میں لگے رہے ہیں کہ وہ ہر اس شعوری آواز کو دبا دے جو اپنی آزادی، حق حاکمیت اور آزاد سماج میں جینے کی بات کرتا ہے، مقبوضہ بلوچستان میں پاکستان اپنی جنگی جرائم کو عالمی اداروں اور غیرملکی ذرائع ابلاغ کے آنکھوں سے اوجھل رکھنے کے لئے ریاستی میڈیا کو بطور ایک ڈھال استعمال کررہی ہے۔ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی مذہبی شدت پسندی کو ایک سوچے سمجھے اور دیرینہ پلان کے تحت بروئے کار لارہی ہے، رواں ہفتے کو مچھ میں ہزارہ کمیونٹی کو ٹارگٹ کرکے مارے جانے کے پیچھے پاکستان کی بے لگام خفیہ اداروں کے پالے ہوئے لوگ ملوث ہیں، بلوچستان میں ریاستی اداروں کے اس بہیمانہ کاروائی کے خلاف آوازیں شدت پکڑتی جارہی ہیں۔ پاکستان فوج اور اداروں نے مچھ واقعہ کو لیکر وکٹم کارڈ کھیلنے کی کوشش کی اور اپنے مذہبی شدت پسند پراکسیوں شفیق مینگل اور ان جیسے اثاثوں کو مچھ میں ہزارہ برادری کی قتل عام کی مذمتی بیانات دلوانے کا حکم صادر کروایا تاکہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے بین الاقوامی برادری کو گمراہ کیا جاسکے۔

یاد رہے غیرملکی فوجی نگرانی کے سیٹلائٹ ، سیارے ، فضا سے کئی ویڈیو اور تصاویر کھینچتے رہتے ہیں۔ کسی بھی ملک میں جاری فوجی نقل و عمل جس میں فضائی جنگی طیارے، ہیلی کاپٹرز، بکتربند گاڑیاں، یا ٹینک کے استعمال کی تصاویر سے چوکنا ہوتے ہیں، اور اس علاقے کے عسکری اداروں سے وضاحت طلب کی جاتی ہے، لہذا اب پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی عالمی اداروں اور متعلقہ بین الاقوامی قوتوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی غرض سے ہزارہ برادری کو قتل کرکے پھر اس قتل کو جواز بنا کر بلوچ عوام کے خلاف جنگی طیاروں اور ریاستی ملٹری کو حرکت میں لارہا ہے۔

ہزارہ برادری پر ہونے والا یہ پہلا حملہ نہیں تھا، اس سے قبل بھی مستونگ ، کوئٹہ ، اور دیگر علاقوں میں ہزارہ شعیہ کمیونٹی پر کئی جان لیوا حملے ہوچکے ہیں جن کی ذمہ داری آئی ایس آئی فنڈڈ لشکر جھنگوی قبول کرتی رہی ہے۔ مچھ واقعہ کی ذمہ داری پاکستانی فوج نے داعش کے نام سے قبول کروائی ہے، اس قتل عام سے پنجابی مقتدر اداروں نے ایک تیر سے کئی شکار کھیلنے کی کوشش کی ہے، ثانی الذکر یہ بھی کہ اس واقعہ کو جواز بنا کر ہرنائی، مچھ، بولان اور قریبی علاقوں میں بلوچ سول ابادی کے خلاف جاری فوجی جارحیت میں لوگوں کی قتل عام میں شدت لائی جا سکے، اور میڈیا کے ذریعے یہ تاثر دیا جائے کہ وہاں جتنے بھی فوجی نقل و عمل ہورہی ہے ان کا مقصد ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں کی قتل عام میں ملوث ملزمات کو پکڑنا یا مارنا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اگر پاکستان کو داعش، لشکر جھنگوی کے خلاف کاروائی کرنی ہے تو انہیں بلوچ آبادیوں کو نشانہ بنانے کی بجائے، ایف سی کیمپس اور ہیڈ کوارٹرز کی جامعہ تلاشی لینے چاہیے کیونکہ یہ سارے مذہبی شدت پسند آئی ایس آئی کے اپنے لوگ ہیں جوحسب ضرورت بلوں سے نکل کر لوگوں حکو نقصان پہنچاتے ہیں اور پھر باآسانی سے فرار ہوتے ہیں۔

ہم سب کو علم ہے کہ ہزارہ برادری کے قتل عام میں ملوث مذہی شدت پسند کاروائی کے بعد قریبی ایف سی کیمپ میں داخل ہوتے ہیں اور پھر اپنے اسلحہ کو مال خانے میں جمع کرکے سادہ کپڑوں میں ملبوث آئی ایس آئی کے محاصرے اور مدد سے اپنے ٹھکانوں میں بخیریت پہنچا دئے جاتے ہیں۔

ہزارہ برادری کے قتل میں ملوث لوگ جی ایچ کیو کے خاص لوگ ہوتے ہیں جن کے خلاف کاروائی تو درکنار ان کا نام لینے سے بھی پولیس اور مقامی عدالت کے پر جلتے ہیں۔

حالات اب اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ مقبوضہ بلوچستان میں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے، نہ ہزارہ محفوظ ہے، نہ بلوچ کی ننگ و ناموس اور عوام کو تحفظ حاصل ہے نہ پشتون آزادانہ کاروبار کرسکتا ہے اور نہ سندھی کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جارہا ہے، ایسے وقت میں تمام محکوم اقوام کو چاہیےکہ وہ اپنی سرزمین پر پنجابی قابض فوج کو مزید دادا گیری کرنے سے روکے اور اپنی قومی طاقت کو سمیٹتے ہوئے بہادر بنگالی قوم کی طرح ملک گیر سطح پر آزادی کا اعلان کرے تاکہ روز روز مرنے سے بہتر ہے کہ ایک ہی وقت میں بہت تعداد میں مرکر اپنے آنے والی نسل کو پنجابی سامراج کی غلامی سے ہمیشہ چٹکارا دلا سکیں، ویسے یہ پنجابی اتنی بہادر بھی نہیں کہ اگر بلوچ، پشتون اور سندھی ان کے خلاف قومی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہو کر ہمارا مقابلہ کرسکے۔

پنجابی نے اکہتر میں صرف ایک بنگالی کو نہ روک سکا تو اب اگر ہماری تین اقوام بلوچ، پشتون اور سندھی کی آزادی کو کیسے روک پائے گا؟ بس ہمیں تھوڑا ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس غلامی کی زنجیر کو مضبوطی سے ہلانا ہوگا، زنجیر ایک دن ضرور ٹوٹ جائیگا۔

خروج از نسخه موبایل