تربت ( ہمگام نیوز) اطلاعات کے مطابق ایچ آر سی پی، ریجنل آفس تربت مکران کی جانب سے ایک پریس ریلیز کے زریعے 10 اکتوبر 2021 کو ہوشاب ضلع کیچ میں ایف سی کی طرف سے گولہ باری کر کے دو بچوں کو قتل کرنے اور ایک بچے کو زخمی کرنے کے عمل کی شدید مذمت کی گئی ہے اور قاتلوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزائیں دینے کا پرزور مطالبہ کیا گیا ہے۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ 10 اکتوبر 2021 کو ہوشاب، ضلع کیچ کے علاقے”پرکوٹگ” میں ایف سی کی بلاوجہ اور بلاجواز گولہ باری کے نتیجے میں ملّی مسکان بنت واحد موقع پر ہی جانبحق ہو گئی تھی جبکہ الله بخش ولد واحد اور پھلین ولد وزیر زخمی ہو گئے تھے جنہیں علاج معالجے کے لیے ٹیچنگ ہسپتال تربت لے جایا گیا جہاں الله بخش ولد واحد شدید زخمی ہونے کی وجہ سے علاج معالجے کے دوران جانبحق ہو گیا۔
جانبحق ہونے والے دونوں بچے انتہائی کمسن تھے اور زخمی بچہ بھی انتہائی کمسن ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کمسن بچوں نے آخر کون سا جرم کیا تھا جس کی پاداش ميں ایف سی نے ان پر غیرقانونی گولہ باری کی اور ایف سی کو اس قسم کی گولہ باریوں کا اختیار کس نے دیا ہے؟
اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ تینوں بچوں کے خاندانوں کی طرف سے ایف آئی آر کٹوانے کے لیے ڈی سی کیچ حسین جان سے رجوع کیا گیا تو انہوں نے ایف آئی آر کٹوانے سے انکار کرتے ہوئے تحقیقات کے بغیر اپنی طرف سے یہ جواب دیا کہ ایک ہینڈ گرینیڈ وہاں پہلے سے پڑا ہوا تھا اور جب بچوں نے اس کے ساتھ کھیلنا شروع کیا تو وہ پھٹ گیا جس سے انہیں نقصان پہنچا۔
اسی طرح جب بچوں کے خاندانوں کی طرف سے دونوں لاشوں کے ساتھ فدا شہید چوک تربت میں احتجاجی دھرنا دیا گیا جس کے دوران یکجہتی کے لیے لوگوں کا آنا جانا شروع ہوا اور اسی دوران 12 اکتوبر کی صبح جب ڈی سی حسین جان بھی دھرنے پر پہنچے تو انہوں نے وہاں پر بھی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کرتے ہوئے گفتگو کے دوران وہاں پر موجود ایک خاتون کی بلاوجہ اور بلاجواز بے عزتی کی جس سے لوگ انکے خلاف کافی مشتحل ہو گئے اور انہوں نے ان کی معطلی اور تبادلے کے مطالبات بھی کئے۔ پریس ریلیز میں مزید کہا گیا ہے کہ تربت سے حق رسی نہ ہونے کی وجہ سے 12 اکتوبر 2021 کی رات کو جب دونوں خاندانوں کی طرف سے دونوں لاشوں کو لیکر بہت سارے لوگ گاڈیوں پر حق رسی کی خاطر کوئٹہ جانے لگے توہوشاب میں ایف سی نے انہیں جانے سے روکا اور یہ کہہ کر کئ گھنٹے روکے رکھا کہ کوئٹہ جانے کی بجائے لاشیں یہیں دفنہ دیں مگر خاندان کے لوگوں نے اس ناجائز حکم کو ماننے کی بجائے کوئٹہ کا سفر جاری رکھا اور 13 اکتوبر کو کوئٹہ میں سیول سکرٹریٹ کے سامنے احتجاجی دھرنے کا سلسلہ پھر شروع کیا اور دھرنے کے دوران حکام بالا سے مجرموں کے خلاف ایف آئی آر کٹوانے اور انکی گرفتاری اور سزائوں کے مطالبات کے ساتھ ساتھ ایف سی کو ضلع کیچ سمیت مکران ڈویژن سے نکالنے اور ڈی سی کیچ حسین جان کی معطلی اور ضلع کیچ سمیت مکران ڈویژن سے تبادلے کے پرزور مطالبات کئے گئے اور سوشل میڈیا کے زریعے لاکھوں بلوچوں اور دیگر انسان دوست لوگوں نے مظلوموں سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے ظالموں کے خلاف انکے جائز مطالبات کی حامی بھرلی۔
پریس ریلیز کے آخر میں زور دیکر کہا گیا ہے کہ ایف سی اور ڈی سی حسین جان مسلسل ملکی آئین اور بین الااقوامی قوانین کی خلاف ورزیاں کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اصل فرائض منصبی کی ادائیگی میں ناکام رہے ہیں اور غریب عوام کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیا کرتے رہے ہیں جسکی بنا پر انہیں قطعی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مزید ضلع کیچ اور مکران ڈویژن میں رہ کر غریب عوام پر ظلم و زیادتی کا ارتقاب کرتے رہیں لہذا حکام بالا سے اپیل کی جاتی ہے کہ مظلوم خاندانوں کے جائز مطالبات کے عین مطابق ایف سی کو فوری طور پر ضلع کیچ اور مکران ڈویژن سے نکال دیا جائے اور ڈی سی کیچ حسین جان کو پہلے معطل کیا جائے اور معطلی کی مدت گزرنے کے بعد انکا تبادلہ ضلع کیچ اور مکران ڈویژن سے باہر کہیں اور کیا جائے تاکہ انصاف کے تقاضے بھی پورے ہو سکیں اور علاقے کے غریب عوام آئندہ انکے مظالم سے بھی محفوظ رہ سکیں۔