کوئٹہ (ہمگام نیوز )بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر منان بلوچ نے صحافیوں سے اپیل کی ہے کہ حکومت کے بیانات پر تکیہ نہ کریں اور خود آوران میں آپریشن سے متاثرعلاقوں کا دورہ کریں وہاں صورتحال کیا ہے یا یہ کہ وہ علاقہ اس وقت کس محاصرے میں ہیں اور وہاں کی آبادی کس حال میں ہیں آزادی صحافت کا خیال رکھتے ہوئے اس علاقے کا دورہ زور کیا جائے بلوچ قوم سے آپیل کرتا ہوں کہ وہ تاریخ اس نازک موڑ پر اپنی تاریخی اور تہذیبی ، قومی، زمہ داریوں نبھاتے ہوئے اتحاد و یکجہتی کے ساتھ اپنا کردار ادار کریں یہ بات پیر کے روز بی این ایم کی خاتون رہنماء زیمل بلوچ نے دیگر خواتین کے ہمراہ ڈاکٹر منان بلوچ کی پریس کانفرنس کوئٹہ پریس کلب میں پڑھ کر سنائی۔بلوچستان کے موجودہ حالات اور آواران میں دس روز سے جاری ریاستی فورسز کے محاصرے کے پیش نظر بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے مرکزی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر منان بلوچ کا پریس کانفرنس جس میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جاری ریاستی سنگینیوں اور ظلم و جبر کا ہر ذی الشعور کو علم ہے ،مگر احساس اور ذمہ داریاں شاید خوف کے زیر سایہ ہیں جسکی وجہ سے صحافی اور صاحب قلم و علم بھی خاموش ہیں،آواران میں عید الفطر کے پہلے روز18 جولائی فورسز کی فضائی بمباری کے بعد آواران میں مالار کے کئی علاقوں ،وہلی ،زیرک،رحیمو بازار،حاجی ملا زیارت، تاحال یعنی دسویں روز بھی مکمل گھیرے میں ہیں۔جنکی کسی کو کوئی خبر نہیں،مقامی انتظامیہ بھی ریاستی فوج کے آگے بے بس ہے،عوام نے جانے کی کوشش کی مگر انکو بھی فوج نے جانے سے روک کر تشدد کا نشانہ بنایا،بی این ایم کی جانب سے کئی بار میڈیا اور انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی گئی کہ وہ خود جا کہ ان علاقوں کو دورہ کریں جہاں تاحال فوج کا محاصرہ ہے اور سینکڑوں لوگوں کی زندگی کی خیریت کے بارے میں کسی کو خبر نہیں۔اس بارے میں ہمیں صحافی حضرات سے شکوہ ضرور ہے کہ انہوں نے دس روز سے فوجی محاصرے کے باوجود علاقے میں جاکر حالات معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی ہے ۔ساتھ ہی انسانی حقوق کے اداروں،سول سوسائٹی کی جانب سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آیا ہے ۔یقیناًبلوچ وطن پر پاکستانی قبضہ اور اسکے خلاف بلوچ قوم کی جہد ،قربانیوں سے آپ لوگ بخوبی آگاہ ہیں ،لیکن گزشتہ پندرہ سالوں سے بلوچ جہد آزادی کے خلاف پاکستانی فوج جس درندگی کا مظاہرہ کر رہی ہے اس سے انسانیت کانپ اُٹھتی ہے۔ان تمام ادوار میں مذہبی تقدس کو پامال کرتے ہوئے بلوچ جہد کو مذہبی شکل دے کر کاؤنٹر کرنے کی کوشش کی گئی ،کبھی ہندوستانی خفیہ ادارے را کی مداخلت ،تو کبھی تہم پرستی اور ذکری،نمازی کا نام دیا گیا،لیکن بلوچ قوم جو سیکولر مزاج کے مالک ہے اپنی بقا کی جنگ تہذیبی و،روایات کے ساتھ ہر سطح پر لڑ رہی ہے،حالانکہ دنیا اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ پاکستان کی وجود کے بعد مذہبی انتہا پسندی کا جو بھیج بویا گیا اس کے نتیجے میں آج پوری دنیا کی امن و آشتی داؤ پر لگ چکی ہے۔بلوچ وطن جس کی تعزیراتی اہمیت سے بلوچ قوم کے ساتھ ساتھ پوری دنیا بخوبی واقف ہے،1990 میں سویت یونین کی بکھرنے کے بعد دنیا میں وسائل کی دسترس اور تگ و دو نے آگے چل کر چین کو ایک ایسی طاقت عطا کر دی کہ آج وہ دنیا کی طاقت ور ملک بننے کی کوشش کو لے کر گواد تا کاشغر اقتصادی راہداری کے نام پر پاکستانی فوج کے ہم پلہ بلوچ وطن میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں اور جرائم میں حصہ دار ہے۔ چین کو بلوچ وطن کی جغرافیائی اہمیت کا بخوبی علم ہے کہ بلوچ وطن کے بغیر دنیا اور خاص کر بلوچ کی مرضی کے بغیر انکی وسائل پر دسترس ممکن نہیں ،لیکن وہ طاقت حاصل کرنے کی کوشش میں بھول چکا ہے کہ بلوچ اپنی وطن کی تحفظ اور قومی بقا کا بخوبی ادارک و جذبہ رکھتے ہیں۔حالیہ واقعات کو میں آپکی توسط و اس نیوز کانفرنس سے دنیا ،میڈیا و انسانی حقوق کے اداروں تک پہنچانا چاہتا ہوں کہ تیس جون رمضان کے مقدس ماہ مشکے کے علاقے میہی پر ریاستی فوج نے حملہ کر کے وہاں تیرہ بلوچ فرزندوں کو شہید کیا اور خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ گھروں میں لوٹ مار کے بعد انکو جلایا گیا ۔اسی طرح13 جولائی خاران میں فورسز نے علی الصبح آبادی پر حملہ کر کے کئی بزرگ ،نوجوان اغوا کر نے کے ساتھ لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا،آواران و مکران میں تاحال فوجی یلغار جاری ہے۔عید کی صبح فضائی بمباری کے بعد آواران کے کولواہ علاقے میں کئی گاؤں کو گھیر کر کئی نہتے بلوچوں کو اغواکیا گیا۔ اس بربریت میں کئی گاؤں صفحہ ہستی سے مٹنے کی اطلاعات ہیں ،کئی بلوچ فرند جن میں خواتین،بچے ،بزرگ اور نوجوان شامل ہیں کے شہید ہونے کی اطلاعات ہیں اور اب تک فوجی محاصرہ جاری ہے اور کسی کو آنے جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے،جہاں پر سینکڑوں گھروں پر مشتمل آبادی ہے ،ظاہر ہے پاکستانی فوج کی بمباری سے یا تو شہید ہو چکے ہیں یا تو شدید ذہنی کوفت سے دوچار ہیں۔افغانستان،ترکی،یمن،شام میں متاثرین کے لیے کہیں نہ کہیں سے آواز سنائی دیتی ہے،لیکن بلوچ وطن میں لاکھوں لوگوں کی زندگی کو جو شدید خطرہ لاحق ہے ان کے متعلق انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی معنی خیز ہے ۔میں دنیا کے مظلوم عوام ،انسان دوست اداروں،مہذب ممالک سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بلوچ قوم کو درپیش اس شدید انسانی بحران میں اپنا کردار ادا کریں۔چین کے عوام جو قربانی کے بعد آزاد وطن کے مالک ہیں،چین کے عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی حکومت کی اس وحشیانہ اقدام کے خلاف جو وہ پاکستان کے ساتھ مل کر بلوچ نسل کشی،سرزمین کے وسائل پر قبضے کا سوچ کر بلوچ نسل کشی میں شریک ہے ۔ آواز اُٹھائیں اور اپنی حکومت کی سامراجی حکمت عملیوں پر لب کشائی کریں ، کیونکہ انکے لوگوں نے اس لیے قربانیاں نہیں دیں کہ وہ اپنی آزادی کے بعد بعد سامراجی روپ دار کر دوسرئے اقوام کو غلام بنانے میں شریک ہوں۔
آپ لوگوں سے اپیل ہے کہ کٹھ پتلی حکومت کے جھوٹے بیانات پر تکیہ نہ کریں اور خود آواران میں آپریشن سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں کہ وہاں صورت حال کیا ہے، یایہ کہ وہ علاقے فوجی محاصرئے میں ہیں کہ نہیں،آیا وہاں کی آبادی کس حال میں ہے۔آپ لوگوں سے اپیل ہے کہ آزادی صحافت کا خیال رکھتے ہوئے خود چل کر دیکھیں اپنے نمائندؤں کو بھیجیں تاکہ کٹھ پتلی جابر نام نہاد حکمرانوں کا ظالم چہرہ عیاں ہو،آج دسویں روز تک آواران میں آپریشن زدہ علاقوں تک کسی کی رسائی نہیں اور میڈیا کی خاموشی بھی افسوسناک حد تک اس کا ذمہ دار ہے۔میں بلوچ قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ تاریخ کے اس نازک موڑ پر اپنی تاریخی و تہذیبی ،قومی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے اتحاد و یکجہتی کے ساتھ اپنا کردار ادا کرئے۔