Homeخبریںاب پاکستان امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر باقاعدہ تعلقات چاہتا...

اب پاکستان امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر باقاعدہ تعلقات چاہتا ہے:عمران خان کی واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو

اسلام آباد (ہمگام نیوز ڈیسک) پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان نے امریکہ کی جنگ لڑتے ہوئے بہت زیادہ نقصان اٹھایا تاہم اب پاکستان امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر باقاعدہ تعلقات چاہتا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ وہ امریکہ سے ایسے تعلقات کبھی نہیں چاہیں گے جس میں پیسے دے کر جنگ لڑنے یا پاکستان کے ساتھ خریدی گئی بندوق جیسا برتاؤ کیا جائے، ہم خود کو دوبارہ اس پوزیشن میں نہیں ڈالیں گے، اس سے انسانی جانوں کا ضیاع، ہمارے قبائلی علاقوں کی تباہی اور ہمارا وقار مجروح ہوتا ہے۔ہم امریکہ کے ساتھ باقاعدہ تعلقات چاہتے ہیں، چین کے ساتھ ہمارے یکطرفہ تعلقات نہیں، دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات بھی ہیں اور ہم اسی طرح کے تعلقات امریکہ سے بھی چاہتے ہیں۔عمران خان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ ‘آپ امریکہ کے بہت مخالف ہیں’ جس کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا اگر آپ امریکہ کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ امریکہ کے خلاف ہیں، بقول ان کے یہ سامراجی سوچ ہے کہ آپ میرے ساتھ ہیں یا میرے خلاف ۔ عمران خان نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان میں طالبان کی پناہ گاہوں کا الزام لگایا تھا، جب حکومت میں آیا تو میں نے فورسز سے مکمل بریفنگ لی اور وقتاً فوقتاً امریکہ سےکہا کہ بتائیں پاکستان میں پناہ گاہیں کہاں ہیں تاکہ اسے چیک کریں، پاکستان میں طالبان کی کوئی پناہ گاہیں نہیں ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے لکھے گئے خط کے سوال پر عمران خان نے کہا افغانستان میں امن پاکستان کے مفاد میں ہے جس کے لیے ہم بھرپور تعاون کریں گے، عمران خان کے بقول افغانستان کا 40 فیصد حصہ افغان حکومت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔
‘امریکی حکام کہتے ہیں پاکستان طالبان رہنماؤں کو پناہ دیتا ہے’، اس سوال کا جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا وہ ان الزامات کو نہیں سمجھ سکے،جبکہ افغانستان میں طالبان مسئلے بابت ملا منصور کی پاکستان میں امریکی ڈرون سے ہلاکت کو بھی شاید زیر بحث نہ لایا گیا ہو ۔بقول عمران خان کے ایسا ملک جس کا ورلڈ ٹریڈ سینٹر حملوں سے کوئی تعلق نہیں، کوئی پاکستانی اس میں ملوث نہیں، القاعدہ افغانستان میں ہے، اس کے باوجود پاکستان کو کہا گیا امریکی جنگ کا حصہ بنیں۔عمران خان نے کہا پاکستان میں مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے امریکی جنگ کی مخالفت کی، اگر ہم اس جنگ میں نہ پڑتے تو خود کو تباہی سے بچا سکتے تھے، امریکہ کا اتحادی بننے کے بعد پاکستان نے 80 ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کیا، تقریباً 150 بلین ڈالر کا معاشی نقصان ہوا، نہ ہی سرمایہ کار اور نہ ٹیمیں یہاں آرہی ہیں اور پاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک بھی قرار دیا گیا۔امریکی فوج کی افغانستان سے واپسی اور مسئلہ کے حل کیلئے کسی نتیجے پر پہنچنے سے متعلق سوال پر عمران خان نے کہا وہ گزشتہ کئی سالوں سے کہہ رہے ہیں کہ افغانستان کے مسئلے کا فوجی حل نہیں اور یہ بات کہنے پر انہیں طالبان خان بھی کہا گیا، اگر آپ امریکہ کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتے تو آپ امریکہ مخالف بن جاتے ہیں۔ لیکن اب میں خوش ہوں کہ ہر کسی نے تسلیم کیا کہ افغان مسئلے کا سیاسی حل ہے، ہم نہیں چاہیں گے کہ امریکہ افغانستان سے جلد بازی میں نکلے جس طرح اس نے 1989 میں کیا تھا عمران خان سے سوال کیا گیا کہ ‘امریکہ کی سیاسی جماعتیں اور حکومت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پاکستان کی گزشتہ حکومتوں نے ان سے جھوٹ بولا’، اس کا جواب دیتے ہوئے پاکستانی وزیراعظم نے کہا انہیں غلط اطلاعات فراہم کی گئیں، کیا یہ ممکن ہے کہ انسانی تاریخ کی سب سے مضبوط فوج، جدید ہتھیاروں سے لیس ڈیڑھ لاکھ نیٹو فوجی اور ایک ٹریلین ڈالر لگانے کے بعد بھی کہا جائے کہ چند ہزار پاکستانی باغی افغانستان میں جنگ کی ناکامی کی وجہ ہیں۔انھوں نے یہ بھی کہا اُسامہ بن لادن کا قتل صرف قتل نہیں بلکہ پاکستان پر عدم اعتماد کا اظہار تھا۔

Exit mobile version