دوشنبه, نوومبر 25, 2024
Homeخبریںاستحصالی منصوبہ سیندک کے منیجنگ ڈائریکٹر کا سیندک پراجیکٹ کے ملازمین کے...

استحصالی منصوبہ سیندک کے منیجنگ ڈائریکٹر کا سیندک پراجیکٹ کے ملازمین کے ساتھ کئے گئے وعدے وفا نہ ہو سکے

کوئٹہ (ہمگام نیوز) منیجنگ ڈائریکٹر کا سیندک پراجیکٹ کے ملازمین کے ساتھ کیے گئے وعدہ وفا نہ ہوسکا ۔

تفصیلات سیندک پراجیکٹ کے ملازمین جنہیں تنکے کا سہارا نہیں انہیں تشفی دینے کے لیئے مختلف ادوار میں وعدہ خلافیاں کی جاتی ہیں سال 2003 میں ایک چینی میکنیکل انجینئر نے تمام ملازمین کو یکجا کرکے یہ سوال پوچھا تھا کہ اگر میں کسی کے ہاں ایک دن مہمان بنو تو میری مہمانی کون قبول کرے گا اس پر سب ملازمین راضی ہوگئے تھے اسی طرح بالترتیب چار ،پانچ ،دس دن تک مہمانی ٹھہرنے کو کہا لیکن اس بار کوئی ملازم تیار نہیں ہوئے پھر چینی نے وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ” یہ کمپنی ہمارے اور آپ سب کے ہیں جب بھی کام شروع ہوجائے تو میں ہر ہنریافتہ اور غیر ہنر یافتہ ملازم کو 500 سے لے کر1000 امریکی ڈالر تک اجرت دینے کو تیار ہوں ” یہ کمپنی ہماری اور آپ کی مشترکہ ہیں ۔ لیکن جب 2005 میں کام شروع ہوا تو بجائے 500 ڈالر کے 80 ڈالر پر بھرتی کی۔ اس طرح کے وعدہ خلافیاں تاہنوز کیے جارہے ہیں ۔

اس کے بعد بلوچستان کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والا ایک بزنجو بلوچ بھی منیجنگ ڈائریکٹر بنا تھا ملازمین نے اللہ اللہ کرکے ان سے بھی فرصت ملی ۔

اس کے بعد خود سیندک کے قبائلی رہنما مالک اراضی کے دعویدار جناب چیئرمین صاحب پیرانہ سالی میں سینہ سپر ہوکر ملازمین کے حقوق لینے کے لیئے سرگرم ہوگئے اس کے ہمراہ اس کا دلی دوست جناب وسیم راجپوت صاحب بھی اکھٹے تھے جنہوں نے تمام ملازمین کے سامنے یہ وعدہ کی تھی کہ میں ملازمین کے حقوق ان افسروں سے ضرور لوں گی جو کئی عرصوں سے ملازمین کے حقوق غصب کیئے جاتے ہیں جن میں خالد گل نامی افسر کے نام سر فہرست تھا ۔ملازمین چیئرمین صاحب کے باتوں پر مکمل پر یقین کرتے ہوئے یہی سوچتے تھے کہ ایک قبائلی معتبرین ہونے کے ناطے ملازمین کے حقوق کے لیئے ضرور کچھ کر لیں گے اسی طرح وسیم صاحب کے بارے میں ملازمین کے یہی تاثرات تھے کہ راجپوتوں کا شمار انڈیا کے غیرت مند اقوام سے ہیں ۔ہوسکتا ہیں کہ یہ ملازمین کے لیئے کوئی مسیحا ہو ۔خود وسیم صاحب بھی ملازمین کو یہ باور کراتے تھے کہ اگر ان ڈکٹیٹر شپ افسر خالد گل کو ہم ہٹا نہ سکے تو ہم نیب کے زریعے سے ان کے خلاف کاروائی کریں گے ۔ پھر ہر ایک ملازم نے وفاقی محتسب کی طرح اپنے اوپر کیئے گئے زیادتیاں صاحب کے پاس تحریراً درج کیئے ۔کچھ عرصے بعد بجائے ان کو ہٹانے کے ان کے پاؤں میں سر رکھ کر راضی نامہ کیئے تھے جس کی بنا پر موصوف کا پرموشن اور چیئرمین صاحب کا حصص میں مزید اضافہ کر دیا گیا ۔
یہاں بتاتا چلوں کہ لکھاری کو ان افسران کے زاتی فعل ، تنقید اور قومیت ذکر کرنے کا کوئی شوق نہیں ۔افسران کے حمایت یافتہ اور ان کے اپنے آدمی ملازمین کا تمسخر اڑاتے ہیں کہ کیسے اپ کے افسر اور رہنما بجائے ملازمین کی حقوق کی بات کرتے اپنے زاتی مراعات کے لیئے راضی ہو گئے ۔
جب ملازمین نے ان تمام کاریگروں سے نا امید ہوگئیں تو اپنی مدد آپ کے تحت مضر صحت کھانا دینے کے خلاف کام چھوڑ ہڑتال پر بیٹھ گئے یہی خیال کیا جا رہا تھا کہ ایک مقامی ٹھیکیدار کوئٹہ سے مردہ اور سڑے ہوئے گوشت لاکر ملازمین کو دیا جاتا تھا ۔تین دن تک ہڑتال چلتا رہا ۔شاہزادہ منیجنگ ڈائریکٹر رازق نے نوٹس لیتے ہوئے جھوٹ بیانی سے کام لے کر ملازمین کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گیا کہ آپ لوگوں کے لیئے میں بہ زات خود بنگالی کک مین کا بندوبست کروں گا جو ملازمین کو معیاری خوراک اور حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق کھانا دینے کے پاپند ہوں گے ۔یہ کہہ کر ملازمین کو باور کرانے میں تو کامیاب ہوگئے چند برائے نام کمیٹیاں تشکیل دیئے گئے جن میں افسران کے آدمی شامل تھے لیکن کچھ عرصے بعد پھر وہی نظام شروع ہوگئے ملازمین اپنے جیبوں سے کھانا لینے پر مجبور ہوگئے اس طرح منیجنگ ڈائریکٹر نے کھلم کھلا جھوٹ بول کر اپنی ہی اعتبار کھودی ۔
کچھ عرصے بعد ملازمین نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کو دیکھ کر ایک دفعہ پھر الاؤنسز ، مراعات ، تنخوائیں اور میڈیکل کے لیئے کام چھوڑ ہڑتال شروع کر دیے ملازمین نے دھمکی دی تھی کہ اگر مطالبات منظور نہیں کیےگئے تو تمام پیداواری سیکشن بلاک کردینگے ۔منیجنگ ڈائریکٹر حسب روایت پھر نمودار ہوکر جھوٹی تسلیاں دے کر سالانہ تنخوائیں 30 ڈالر سے لے کر 50 ڈالر بڑھانے کی منظوری دے کر باقاعدہ دستخط کرکے کچھ ملازمین پر مشتمل انکوائری کمیٹی بھی بنا دی ۔تاکہ ملازمین اپنے مسئلے بروقت پیش کر سکے ۔اس کے کچھ عرصے بعد ایک سازش کے تحت کمیٹی والوں کو ملازمت سے برخاست کر دیے گئے تنخواؤں کو تیس،چالیس ڈالر کے بجائے آٹھ ،دس ڈالر بڑھائے گئے ۔ اس طرح ملازمین کا اعتبار ایم ۔ڈی سے اٹھ گئے ۔
ضلع چاغی کے عوام جو ایم۔ڈی صاحب کو ایماندار اور مردِ آفاقی تصور کرتے ہیں لیکن حقیقت میں ایسی نہیں البتہ اتنا ضرور ہے کہ وہ اپنی برادری کے لیئے کوئی مسیحا سے کم نہیں خود سیندک میٹلز لمیٹڈ کے ملازم اور ان کے زاتی ڈرائیور کنٹریکٹ نہ دینے کی وجہ سے استعفی دے چکے ہیں ۔
موصوف کو بلوچ اور بلوچستان سے کوئی دلچسپی نہیں ہاں اتنا ضرور ہے کچھ افراد کو اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کے لیئے بطور آؤٹ سکیورٹی اور اِن سکیورٹی کے نام پر بیوقوف بنایا ہوا ہیں ۔اب چوں کہ سیندک پراجیکٹ میں شمالی ، جنوبی کان ختم ہوچکی ہیں اور مشرقی کان میں کرونا کے بہانے دن رات وسائل کی لوٹ ماری جاری ہیں وہاں چِکِندگ میں بھی کان کنی کی جارہی ہیں جہاں چاہنیز اور منیجنگ ڈائریکٹر کی گٹھ جوڑ سے یہ منصوبہ زور شور سے جاری ہیں۔ ایک طرف بلوچ عوام وسائل کے ہوتے ہوئے تنگدستی اور بیروزگاری کا شکار ہیں وہی پر بلوچستان کے نام پر لالچی افسران اپنی سیاست چمکا رہے ہیں بلوچ راج دوست اپنے وسائل کی خاطر ہر طرح کی قربانیوں سے دریغ نہیں کرتے مگر ان بے حس افسران جو بلوچستان اور وسائل کا سودائی کرچکے ہیں ۔ضلع چاغی کو چاہنیز کے آتھوں بیچ دییے ہیں بلوچ دوست لوگوں کو ان بے ضمیر وطن فروشوں کے لیئے ٹھوس حکمت عملی اپنانا چاہیئے ان سے پہلے کہ چیئرمین سینٹ اور ایم۔ڈی بلوچ وسائل کو اونے پونے بیچ دی جائے.

یہ بھی پڑھیں

فیچرز