Homeآرٹیکلزاسرائیلی وزیراعظم کا خفیہ دورہ پاکستان, تحریر : منجرو گٹ بلوچ

اسرائیلی وزیراعظم کا خفیہ دورہ پاکستان, تحریر : منجرو گٹ بلوچ

ہمگام کالم : اسرائیلی صحافی ایوی شیراف نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی طیارہ تل ابیب سے براستہ عمان، پاکستان پہنچا.دوسری جانب اسرائیلی صحافی ایوی شیراف نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں دعویٰ کیا تھا کہ ‘اسرائیلی طیارے نے تل ابیب سے اسلام آباد کے لیے اڑان بھری جبکہ 10 گھنٹے بعد واپس تل ابیب کی پرواز کی۔ ایوی شیراف نے ٹویٹ میں سوال کرتےہوئے کہا کہ ‘رواں ہفتے تل ابیب سے پاکستان کون گیا تھا۔ زرائع ابلاغ کے توسط سے حاصل شدہ ہونے والے معلومات کے مطابق گزشتہ روز اسرائیلی وزیراعظم نے کسی طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت کھلی طور آرمینیا، اومان کا سرکاری دورہ کرنے کے بعد میڈیا خبروں کے مطابق خفیہ طریقے سے پاکستان کابھی دورہ کیا۔ عمان کے دورے میں نیتن یاہو کے ہمراہ موساد کے سربراہ یوسی کوہن اور قومی سلامتی کے مشیر میئر بین شبات بھی تھے۔اب اس بات میں کتنی سچائی ہے اس خبر کی حقیقت جاننے کیلئے ہم اس وقت قیاس ہی کرکے دو نتیجوں پر پہنچ سکتے ہیں ،نمبر 1 پاکستانی مقتدر اعلی کی طرف سے ہمیشہ بہت سے ایسے مواقعوں پر سرکاری سطح پر بڑی بے شرمی سے جھوٹ بولا گیا ہے، جو کہ کچھ وقت کے بعد کسی دوسرے زرائع سے اصل حقائق سچائی کے ساتھ عوام کے سامنےآشکار ہوئی ہیں ۔ اس کی کئی ناقابل تردید مثالیں موجود ہیں،دوئم اس بات کا بھی امکان ہے کہ مستقبل قریب میں ہونے والے ممکنہ سیاسی حالات کیلئے دانستہ طور پر یہاں اس وقت ایک ایسی خبر چلائی گئی تاکہ عوامی سطح پر رائے عامہ کو ہموار کرنے اور ردعمل کو جانچا جاسکے ۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان آنے والے دنوں میں سرکاری سطح پر اسرائیل کو تسلیم کرکے آفیشلی ان کے ساتھ کوئی میٹنگ منعقد ہو ! اور ایسا اسلیئے کیا جارہا ہے تاکہ آنے والے دنوں میں ممکنہ طور پر ایران کا مختلف اطراف سے گیھراو تنگ کرکے اپنے مطالبے اور شرائط بزور قوت منوانے کیلئے اس پر پہلے مرحلے کے طور پر سخت معاشی پابندیاں عاید کی جائے، بعد میں اسے عراق کی طرح سیاسی تنہائی کا شکار کرکے کمزور، لاچار اور بعد میں اس پر سخت معاشی پابندی عاید کرکے اسے معاشی طور پر اتنا کمزور و خستہ حال کیا جائے تا کہ اس پر حملے کی صورت میں وہ زیادہ مزاحمت نہ کرسکے۔ ابتدائی طور پر اگر ان سیاسی و معاشی پابندیوں کا ہنر کارگر ثابت نہ ہوا، تو اگلے اور متبادل آپشن کے طور پر مستقبل قریب میں اس پر فوجی حملہ خارج ازامکان نہیں ، اس کے بعد کے مرحلے میں متبادل کے طور پر اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ یورپ و امریکہ میں سیاسی جلاوطن ایرانی اپوزیشن کو امریکہ اور اس کے اتحادی ہر حوالے سے کمک پہنچا کر اقتدار میں داخلی طور پر شیعہ ملارجیم کو اقتدار سے بے دخل کرکے حکومتی سطح پر کوئی چینج لاکر اپنے پسند کی روشن خیال حکومت تشکیل دے سکے، حالت جب اس قسم کے ہو تو ایسے وقت میں اس خطہ کی سیاسی صورتحال کتنا بھیانک ہوگا ؟
اب آتے ہیں بحث کی اصلی مرکزی رخ پر، اسرائیلی وزیراعظم کی خفیہ دورہ پاکستان جس میں وہ پاکستان کے حکومتی و فوجی مقتدر حلقوں کے ساتھ طویل مزاکرات کرکے مختلف قسم کے سازباز و معائدے کیئے ہونگے،خصوصاً ایسے وقت میں جب پاکستان کی معاشی صورتحال انتہائی خراب ہو،اس وقت ایسے طاقتور کھلاڑی ان سے اپنے مرضی کی شرائط منواسکتا ہے، یاد رہے گزشتہ ہفتے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا دورہ سعودی عرب میں امداد اور سعودی حکومت کی بلوچستان میں سرمایہ کاری کیلئے آمادگی یہ سب کچھ ایران پر ممکنہ حملے اور اسرائیل کو سرکاری سطح پر تسلیم کرنے کی کڑیاں ہو سکتی ہیں۔ جس میں انہیں سعودی عرب کی طرف سے 3 بلین ڈالر کی امداد دی گئی، اس بات کا خاص امکان ہے کہ آنے والے دنوں میں ایران پر حملہ آور ہونے والے اتحاد میں پاکستان ڈالر کے بدلے میں عملی طور لاجسٹک سپورٹ کے طور پر اس اتحاد میں شامل ہو سکتا ہے،جہاں بلوچ گلزمین کو بطور جنگی ہیلی پیڈ کے استعمال کیا جائیگا ،جیسے افغانستان پر حملے کی صورت میں اس وقت ہوا۔ پاکستان کی طرف سے سعودی عرب، امریکہ اور اسرائیلی فضائیہ کو ائیرپورٹ ، فضائی سروس اور انٹیلیجنس کیلئے معلومات فراہم کرنا شامل ہوسکتا ہے۔ اگر یہ کارگر ثابت ہوئے تو اس خطے میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے۔ان عالمی طاقتوں نے ان آزمودہ ہنر کو اس سے پہلے بھی آزما چکے ہیں ، جیسے کہ ماضی میں اسی طرح ہوتا آرہا یے ، یہ بات واضع اور یعقینی ہے کہ ایران کا موازنہ ان قوتوں کے ساتھ نہیں ہوسکتا ، ایران کی مقتدر حلقے کی، اس خطے کی صورتحال پر اگر ہم ان کے بھڑک بازیوں کو منفی کرکے ایک طرف رکھ دیں تو ایران کی پوزیشن ہر حوالے سے کافی کمزور دکھائی دے رہا ہے ،امریکہ و اسرائیل کو ایران پر واضع پوزیشن میں سیاسی ، معاشی ،ملٹری، فضائی ، سائنس و ٹیکنالوجی ،علم وہنر، منصوبہ بندی غرض یہ کہ کوئی ایسا شعبہ نظر نہیں آرہا جہاں کوئی شخص ایک ایسی مثال پیش کر سکے کہ یہاں ایران کی پوزیشن اس فیلڈ میں بہتر یا پائیدار ہیں ، داخلی طور پر امریکہ و اسرائیل کے اندرونی مسائل و سماجی تضادات کی ایسی خراب صورتحال نہیں جس طرح ایران بدتر خراب صورتحال سے دوچار ہو کر گزر رہا ہے ،جہاں سیاسی ،سماجی ،معاشی انارکزم کے واضع اثرات محسوس کیئے جاسکتے ہیں۔ایک اور اہم بات دنیا میں عمومی طور پر ہر شعبے، خصوصی طور پر ملٹری کے شعبے میں ہیومن ریسورس انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ،ایرانی من حیث القوم میدان جنگ میں ان بڑی طاقتوں کا اس حد تک ڈٹ کر مقابلہ شاید نہ کرسکے جس انداز میں عراقی عرب نے مزاحمت کے باب میں ایک تاریخ رقم کی،لیکن پھر بھی پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ بہادر امریکہ کے سامنے عراقی ریاست ،صدر صدام حسین ،اس کے خاندان ،بعث پارٹی اور عراقی ریپبلکن گارڈ و لیبیا کے کرنل قزافی اس کے بیٹے سیف السلام کی حشر کو کس طرح عبرتناک بنایا گیا۔ اب اگر ہم امریکہ و اسرائیل کا ایران کے ساتھ موجودہ سیاسی معاشی عسکری حوالے سے زور آزمائی کا موازنہ کرے تو ایک واضع فرق اور فاصلہ دیکھنے میں نظر آتا ہے ۔اگر رشیاء اس جنگ میں اسرائیلی سفارتکاری کی بدولت دور رہا تو یہ جنگ لڑنے سے پہلے ایرانی شکست ابھی سے واضح دکھائی دے رہا ہیں ۔عراقی و لیبیائی عرب میدان جنگ میں لڑنے کے حوالے سے ایک مضبوط جرات اور بہادر قوم کے طور پر مزاحمتی مزاج کی تاریخ رکھتے ہیں ،جبکہ ایرانی گجر نازک و آسودہ مزاج اور مزاحمت کی تاریخ میں کوئی قابل تعریف کارنامے یا جرات و جوہر نہیں رکھتے، نتیجہ واضع نظر آرہا ہے اگر اس بار امریکہ ،اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو ان کے بہت برے اور قابل عبرتناک دن ہونگے۔ایسی صورتحال جس میں ایران کی طرف سے مظلوم اقوام ،کرد،احوازی اور بلوچ قوم پر اپنے ریاستی قوت کے بل بوتے پر غیرانسانی مظالم میں کوئی کمی نہیں چھوڑی گئی ہے۔ایسی صورتحال میں جب امریکہ اور اس کے اتحادی اسرائیل و سعودی عرب اگرایران پر حملہ آور ہوتے ہیں تو یقینی طور پر ایران کی صورتحال عراق و شام سے بھی زیادہ بد تر ہوسکتا ہے، ایک اوربات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے، تمام صورت حال کو دیکھ کر مشرق وسطی ، وسطی ایشیاء،جنوبی ایشیاء کے خطے میں ایک اہم سیاسی تبدیلی و ایران میں کسی بڑی جنگ کی طرف واضح اشاروں کے بعد اب تو عملی اقدامات ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ان خطوں میں گریٹ گیم میں شامل بہت سے چھوٹے بڑے کھلاڑی شامل ہے جن ،میں امریکہ چائنا،ہندوستان،پاکستان،ایران،اسرائیل ،افغان بلوچ قوم کے ساتھ کچھ دوسرے پوشیدہ قوتیں بھی شامل ہیں،جہاں ہر فریق دن و رات اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ وہ اس عالمی بازی میں اپنے قوم کی وسیع تر مفاد کو کس طرح کیسے محفوظ کرسکتا ہے۔ البتہ اس خطے میں جیواسٹریٹجک پولیٹکس میں اہمیت کی وجہ سے ایران و پاکستان کی اہمیت اس لیئے زیادہ ہے کیونکہ اس میں بلوچستان کی بری و بحری جغرافیاں شامل ہیں۔گمان یہی کیا جاسکتا ہے کہ بلوچ قوم کے ازلی دشمنان ایران و پاکستان بلوچ گلزمین کی صورتحال ایک فوجی اڈے کے طور پر بنادینگے۔ اس خطے میں عالمی و علاقائی بد امنی اور گھمبیر مسائل کی بنیادی وجہ یہ دونوں ریاستیں ہیں،کیونکہ ان ریاستوں کی مخصوص و بااثر مقتدر قوتوں کی وجہ سے خراب اور ناکام داخلہ و خارجہ ریاستی پالیسی نے نہ صرف ان کے اپنے شہریوں کیلئے بے پناہ مسائل پیدا کیئے ہیں ،بلکہ اس خطے میں آباد دوسرے اقوام کے ساتھ، ساتھ مظلوم بلوچ قوم کی قومی آزادی و بقاء کو بھی داوں پر لگا چکی ہے۔اب ایران اور اس خطے کے حوالے عالمی و علاقائی صورتحال اس قسم کا ہو تو ہم کیونکر اس ایرانی گجر کو مسیحا سمجھ بیھٹے ہیں جو برائے راست بلوچ وطن کے ایک وسیع رقبے پر اپنا قبضہ جما کر وہاں بلوچ قوم کی سیاسی معاشی استعصال کے ساتھ مخرلف جھوٹے بہانوں سے ہمارے بلوچ نوجوان چاہے وہ مشرقی یا مغربی بلوچستان کا ہو ، ان کے فورسز انھیں گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں۔بیشتر نوجوانوں کو راہ چلتے سرکاری اسلحے سے شوٹ کرکے شہید کردیاجاتاہے ،کچھ عرصہ پہلے پہرہ /ایرانشہر شہر میں بلوچ بہن کو ایرانی فورسز نے اس کے گھر کے سامنے گھسیٹ کر گاڑی میں ڈال کر اپنی ہوس کا نشانہ بنایا ،کیا کوئی شخص انسانی تاریخ میں قوموں کے آپسی تعلقات میں کوئی ایک مثال بھی پیش کرسکتا ہے کہ ان کے دشمن اور سرزمین پر قابض نے ان کی مدد کی ہو ؟ لہزا ہمیں وقت کی نبض کو جلد سے جلد سمجھ کر مزید نادانیوں سے باز رہنا چائیے ۔اور اپنے بازو اہمیت کے حامل جغرافیہ پر بھروسہ کرنا چائیے۔جو کہ ہماری سب سے بڑی قوت ہیں۔ اگر اس دورانیہ میں بلوچ وطن کے حقیقی زمہ دارحلقے یا اسٹیک ہولڈر بیرونی حلقوں پر انحصار کرنے کی بجائے خود اپنے بازو،اور بلوچ وطن کی بہترین، موضوع گوریلا جنگی جغرافیہ اور افرادی قوت پر انحصار کرے، اور اپنے ان فکری ہمکاروں کی قدر و اہمیت اور حیثیت کو نیک نیتی میں دل سے تسلیم کرے، جو قومی نجات کے اس جنگ جس میں سب کی قربانی ،درد وتکالیف ، خوشی ،منزل و مقصد مشترک ہیں۔انسانی عقل و شعور اور وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ اولیت کی اہمیت اپنوں کو ملنا چائیے،بیرونی قوت و طاقت کی اہمیت سے کوئی زی الشعور انسان انکار نہیں کر سکتا،لیکن اپنے فکری جہدکاروں اور وطن کی جنگی جغرافیائی اہمیت کو اول اہمیت اور باقی کو ثانوی اہمیت ہونا چائیے، کیونکہ اول کے ساتھ ہماری رشتہ ،فطری ،مضبوط اور پائیدار بنیادوں پر ہے،جبکہ ثانوی حلقے چاہے کوئی بھی قوم ہو ان کی مفادات اور ترجیحات معروضی حالات میں موسم کی طرح کسی بھی وقت بدل سکتے ہیں۔جن کو ہم یقیناً غیر پائیدار کہہ سکتے ہیں۔لہزا وقت اور انسانی شعور کا تقاضہ یہی ہے کہ بلوچ قوم کے وسیع تر مفاد کو مدنظر رکھ کر خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کو پیش نظر رکھ کر وقت کی نزاکت یہی ہے کہ آپس کے رنجشوں کو بلوچ قوم کے وسیع تر مفاد کی خاطر اس طرح بخشا جائے ،جس طرح امریکہ نے جاپان کے شہر ناگاساکی اور ہیروشیما پر ایٹمی حملہ کرنے و ہزاروں انسانوں کی ہلاکت کے باوجود بڑے نقصانات ہوتے ہوئے بھی امریکہ و جاپان کے باقی ماندہ آنے والے انسانوں کی خوشحال و باعزت زندگی کی خاطر اچھے اور مضبوط تعلقات کے بندھن میں جس طرح سے جڑگئے تھے ۔دشمن کی جبر کے ساتھ ،ساتھ ہماری داخلی ناگفتہ سیاسی مسائل اور بدگمانیوں کی وجہ سے بلوچ مجموعی قومی
مزاحمتی ،سیاسی و سفارتی سطح پر انتہائی کمزور پوزیشن پر ہے ،اب اگر ہم نے بحثیت قوم اس کمزور پوزیشن سے نکلنا ہے تو اس کیلئے لازم ہے کہ ایک دوسرے کی حیثیت کو کھلے دل اور خلوص نیت سے تسلیم کرنا ہوگا۔تب جاکے ہم ایک مضبوط فریق کے طور پر ایک ایسے پوزیشن پر سامنے آسکتے ہیں،جس سے بلوچ قومی نجات کا سفر ممکن ہوسکتا ہے ۔خصوصاً بلوچ قومی تحریک کیلئے دشمن کی خراب معاشی صورتحال اور ناکام داخلہ و خارجہ پالیسیز عالمی سیاست بازی کی صورتحال ہمارے لیئے سنہری مواقع کے برابر ہے ،لہزا اس اہم وقت اور بہتر مواقع کو ضائع کرنا دانشمندی نہیں کہا جاسکتا ۔پاکستان کی معاشی صورتحال بہت زیادہ خراب ہے اس وقت ان کو ایسے حالات میں اکثر جگہوں پر ہنگامی بنیادوں پہ اتنی کثیر رقم چائیے جس میں 9بلین ڈالرمقامی معیشت کوچلانے کیلئے جلد از جلد ضرورت ہے،جبکہ 3بلین ڈالر کرنٹ اکاونٹ کو برقرار رکھنے کیلئے درکار ہونگے 1 ڈالر 139 روپیہ تک پہنچ گیا ۔ دشمن ریاست پاکستان کی اسی خراب معیشت کی وجہ سے اس کی اسٹاک ایکسچینج پچھلے 6مہینے میں 12 فیصد گرچکی ہے۔ دشمن کی یہ سب کمزوریاں ہمارے لیئے مثبت معنی میں شمار ہونگے۔اس وقت بلوچ قومی تحریک کو سب سے زیادہ داخلی طور سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔ فریقین کو مل کر اس کا حل نکالنا ہوگا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بلوچ قومی نجات کے اس سفر میں عالمی داو پیچ کو سمجھنے میں بلوچ رہبر واجہ حیربیار مری نے اپنی دور اندیشانہ سیاسی بصیرت اور لاثانی صلاحیتوں کی بدولت ایران ،پاکستان اور عالمی طاقتوں کی اس خطے میں اپنے مفادات کی خاطر رسہ کشی میں بلوچ مفادات کی درست ترجمانی کرتے ہوئے سیاسی داو پیچ کی باریک بینیوں کو سمجھ کر سیاست میں درست سمت کیلئے پائیدار راہیں متعین کی ،عالمی و علاقائی سیاست کی رخ کو دیکھ کر انہوں نے کم و بیش دو دہائی پہلے عالمی سیاست کی نبض کو درست سمھجا ہوگا۔تب ہی ہوتو جب سابقہ امریکی صدر باراک اوباما انتظامیہ جس نے ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل کی، جس کے بدلے میں ان پر معاشی و تجارتی پابندیاں ہٹائی گئی تھی،جس کی اس وقت بلوچ سیاست میں واجہ حیربیار مری نے کھل کر اس ڈیل کی مخالفت کرکے اسے شیطان کے ساتھ ساز باز کہا تھا ، لیکن جب امریکہ میں ریپبلکن پارٹی کے صدر مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت آئی تو انھوں نے فوراً اس نیو کلیئر ڈیل معائدے کو معطل کروایا ،جس سے یہ بات درست ثابت ہوگئی کہ بلوچ رہبر کی سیاسی ادراک کو عالمی سطح پر عالمی رہنماوں نے بھی درست مان لیا ،لہزا آج وقت کی ضرورت یہ ہے کہ اس خطے میں جتنے بھی فریق ان جنگی و سیاسی کش مہ کش میں برائے راست یا اپنے کرایے کی پروکسیز کے زریعئے جیسے بھی ہاتھ پاوں مار رہے ہیں،اس میں ان کا مطمع نظر اپنی قومی مفادات ہے،حیران کن اور پریشان کن بات یہ ہے کہ ایران پر حملہ،سی پیک،ون بیلٹ ون روڈ،اور افغانستان میں جتنی بھی قوتیں اس جنگ میں کسی بھی طرح سے شامل ہیں،سب کی قومی مفادات ایک واضع حد تک بشمول جنگ زدہ افغانستان اور تباہ حال معیشت پنجابی کے مفادات معفوظ دکھائی دے رہی ہے ،ماسوائے بلوچ قومی مفادات بے شمار قومی قربانیوں اور محنت کے باوجود غیر یقینی کا شکار دکھائی دے رہا ہے،حالانکہ اس پورے قضیے میں بلوچ وطن کی جغرافیائی اہمیت مرکزی اہمیت کی حامل ہے، جبکہ خود اس کے باسیوں کو مختلف فیصلوں اور موقعوں پر برائے راست یا بالواسطہ مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے،جس میں ہمیں سب سے بڑی کمی بلوچ قومی جہد و سیاست میں داخلی مسائل نظر آتے ہیں،ان مسائل کو حل کرنے کیلئے سب سے پہلے اعتماد سازی کیلئے ایک ماحول بنایا جائے،اور اس کے بعد باہمی رابطوں کو باقاعدگی سے شروع کرنا چائیے،تاکہ اس سے ایک دوسرے کی خدشات گلے شکوے و بدگمانیوں کو دور کرنے اور سمجھنے میں آسانی پیدا ہو سکے ۔تب ہی ممکن ہوگا کہ ہم من حیث القوم اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرسکیں گے، دوسری صورت میں بلوچ قومی آزادی حاصل نہ کرنے کی صورت میں صرف دشمن کی سی پیک کے فعال ہونے کی صورت میں آزادی تو دور کی بات خاکم بدہن ہم قومی فنا کی طرف ہمیشہ کیلئے جاسکتے ہیں،وقت بڑی تیزی سے ہمارے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے،لہزا وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے تمام بلوچ آزادی پسند سیاسی کارکن قومی مفادات کی خاطر ہنگامی بنیادوں پر ہمیں سیاسی مسائل کو تنظیمی عصبیت سے بالاتر ہوکر دیکھنا چائیے، تب یہ ممکن ہوگا کہ ہم اپنے داخلی مسائل کو حل کرکے قومی نجات کی تحریک کو ایک تندرست و توانا شکل دے کر قوم کی اعتماد کو بحال کرکے قومی آزادی کی سفر کو غیر یقینی صورتحال سے نکال کر کامیابی کے ٹریک پر درست سمت میں لا سکیں گے ،اگر ایسا نہ ہوا تو ہمارے پاس حال اور مستقبل میں ماسوائے پشیمانی اور پریشانی کے کچھ ہاتھ نہیں آئیگا.

Exit mobile version