یکشنبه, نوومبر 24, 2024
Homeخبریںاسلام آباد میں بلوچ طلبا پر تشدد نوآبادیاتی نفسیات کا اظہار ہے۔...

اسلام آباد میں بلوچ طلبا پر تشدد نوآبادیاتی نفسیات کا اظہار ہے۔ مرکزی ترجمان بی این ایم

کوئٹہ (ہمگام نیوز) بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں اسلام آباد میں بلوچ طلبا پر تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ طلبا پر تشدد نوآبادیاتی نفیسات کا اظہار ہے کیونکہ بلوچ جدوجہد نے ہر میدان میں پاکستانی جارحیت کو قربانی اور بلند حوصلگی سے شکست دی ہے۔ پاکستان نے ظلم و سفاکیت کے تمام حربے آزمائے ہیں لیکن پاکستان بلوچ قومی حوصلے کو شکست نہیں دے سکا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ اسلام آباد میں جاری احتجاج حفیظ بلوچ کی بازیابی کے لیے ہے جسے خضدار سے پاکستانی فوج نے حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیا تھا۔ اس واقعے کے چشم دید گواہ موجود ہیں کہ انھیں میجر مرتضیٰ نامی افسر نے حراست میں لیا تھا۔ اس کے باوجود حفیظ بلوچ کو مسلسل گمشدہ رکھنا میجر نوید کی مثال دہرانے کی کوشش ہے جس نے دالبندین سے حفیظ اللہ نامی بلوچ کو اغوا کرکے سات ملین تاوان کی رقم حاصل کی اور ثبوتوں کے باوجود حفیظ اللہ بلوچ کو دوران حراست قتل کرکے شہید کیا گیا۔ میجر نوید کو کبھی بھی قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔ اسی طرح ڈیرہ بگٹی میں ڈاکٹر شازیہ خالد جنسی زیادتی میں براہ راست ملوث کیپٹن حماد کو بھی استثیٰ دیا گیا کیونکہ بلوچوں پر مظالم ریاستی پالیسی کا حصہ ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اسلام آباد یا پنجاب میں بلوچ طلبا پر تشدد کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ وہاں پولیس تشدد کے ساتھ مقامی طلبا تنظیموں اور خفیہ اداروں کی جانب سے بلوچوں کو مسلسل دباؤ میں رکھنے کے لیے مختلف اوقات میں نت نئے آزمائش آزمائے گئے ہیں۔ وہاں شہید شہداد اور شہید میجر نورا کو بھی اسی طرح نشانہ بنایا گیا اور انھوں نے بلوچی جذبہ اور ”بیر“ کے لیے قومی آزادی کی مسلح تنظیموں میں جگہ بنا کر جدوجہد کی۔ حال ہی میں ایک دفعہ پھر خفیہ اداروں نے پنجاب کے کئی تعلیمی اداروں میں “پروفائلنگ“ کرکے بلوچ طلبا کو ذہنی اذیت سے دوچار کیا ہے۔ جب وہ اپنے ساتھی حفیظ بلوچ کی بازیابی کے لیے احتجاجی کیمپ لگا کر بیٹھے تو پہلے ان کی کیمپ کا خیمہ اکھاڑ دیا گیا اور بعد میں ان پر بہیمانہ طاقت کا استعمال کیا گیا جس سے کئی طلبا شدید زخمی ہوگئے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ پنجاب میں بلوچ طلبا پر تشدد اور وہاں میڈیا اور اکثریتی عوام کی خاموشی نے یہ ثبوت دیا ہے کہ عام عوام بلوچ قوم پر تشدد کی ریاستی بیانیہ کے ساتھ متفق ہے۔ سول سوسائٹی کے چند افراد اور چند صحافیوں نے اپنی ضمیر کی آواز کے مطابق بلوچ طلبا پر تشدد کی مذمت کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں جو نوآبادیاتی نظام تعليم رائج تھا، اس پر قدغنیں ہیں۔ تعلیمی اداروں کو فوجی کیمپوں میں تبدیل کیا گیا ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی ایک تعلیمی ادارے سے زیادہ اور یک فوجی چھاؤنی کا منظر پیش کرتا ہے۔ وہاں بھی طلبا و طالبات اپنے ساتھیوں صفی االلہ اور سہیل بلوچ کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔ سات دہائیوں سے بلوچوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا ہے، وہ حاکم اور محکوم یا غلام اور آقا کی اصل تعریف کی عملی شکل ہے۔ اسلام آباد میں طلباء کے پر امن احتجاجی مظاہرے پر لاٹھی چارج اور کئی طلبا کا زخمی ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ بلوچوں کے لیے نہ صرف تعلیم کے دروازے بند کیے گئے ہیں بلکہ انھیں کسی بھی جائز مطالبے پر آواز اٹھانے کی اجازت نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز