یکشنبه, اکتوبر 6, 2024
Homeخبریں اغیارکے ہاتھوں یرغمال بین الافغانی مذاکرات | تحریر : حفیظ حسن آبادی

 اغیارکے ہاتھوں یرغمال بین الافغانی مذاکرات | تحریر : حفیظ حسن آبادی

 اغیارکے ہاتھوں یرغمال بین الافغانی مذاکرات

تحریر : حفیظ حسن آبادی

اس میں دو رائے بالکل بھی نہیں کہ افغان عوام جنگ سے بُری طرح تھک چکے ہیں لاشیں اُٹھا اُٹھا کر اُن کے کندھے تھکن سے چھور ہوچکےہیں اور دہائیوں پر محیط طویل جنگ نے اُنھیں امن سے سانس لینےکے اُس شدت طلب سے آشنا کیا ہے کہ جس کا اندازہ صرف وہیں قومیں لگا سکتی ہیں جو اُن جیسے ناکردہ گناہوں کے جہنم سے گزرے یا گزر رہے ہیں۔ مگر اس امن کے متمنی قوم کے امن کا زخمی فاختہ کہیں دور پاکستان کی سازشوں کے پنجرے میں بند پڑپڑا رہا ہے۔

اب جو امریکہ طالبان مذاکرات کے نام پر جو ڈرامہ آئی ایس آئی نے اسٹیج کروایا اور امریکہ کے برسراقتدارحکمران نہ صرف خود اس میں پھنس گئے بلکہ افغان حکومت پر ہر طرح کا دباؤ ڈال کر اُنھیں ہر وہ کام کرنے مجبور کیا جو نہ افغان عوام کے مفاد میں ہےنہ افغان حکومت کے اور نہ ہی امریکہ سمیت عالمی دنیاکے مفاد میں ہےمگراب وقت کیساتھ سب پر یہ راز کھلنے جارہے ہیں کہ امریکہ نے کس طرح غلط اندازوں اور پاکستان کے اشاروں پر چل کرکتنی بڑی غلطی کی ہے۔

چونکہ گفتگو کی بنیاد جھوٹ اور ایک دوسرے کو فریب دینے پررکھی گئی تھی اس لئے ان سے اچھی توقع وابستہ نہیں کی جاسکتی ۔اس “امن پروسیس “میں سب سے بڑا جھوٹ یہ تھا جو امریکہ نے اپنے آپ سے بولا اور خود کو خود فریب دیا کہ جن طالبان کو وہ دہشتگرد کہتا تھا اچانک سیاسی قوت تسلیم کیا ۔گوکہ طالبان اپنے عمل سے ایک ایک قدم پر یہ ثابت کررہے ہیں کہ اُنکے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے جبکہ امریکہ اُن کیلئے دلیلیں دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش میں اپنی پوزیشن خراب کررہا ہے کہ یہ طالبان وہ طالبان نہیں جو دوہزار ایک میں تھے ۔طالبان کاالقاعدہ ،جیش محمد ،جماعت الدعواہ وغیرہ سے لاتعلقی ایسی دوسری بڑی جھوٹ ہے کہ جس پر امریکہ بھروسہ کا تاثر دے کر خود کو دھوکے میں رکھنے کی سعی کررہاہے۔

یہ بات یقیناً قابل غورہونا چائیے تھاکہ اگرطالبان کے نعرے، طرز عمل ،پاکستان سے وابستگی میں کہیں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے تو دوسرے دہشتگرد تنظیموں سے لاتعلقی کا اظہار کیسے درست ہو سکتاہے؟ ایک اور فریب یہ تھا کہ جو افغان حکومت امریکی حمایت سے قائم ہے اُسکی قبولیت طالبان سے نہیں کراسکا حالانکہ اس بات کو قانون اور سیاست و دنیاوی تمام سنجیدہ معاملات جاننے والے جانتے اور مانتے ہیں کہ بات چیت و معاملات اُس سے کئے جاتے ہیں جس کی قانونی حیثیت کو تسلیم کیا جاتا ہے ۔دور جانے کی ضرورت نہیں خود امریکہ کو ہی لیجئے جب تک وہ طالبان کو سیاسی قوت نہیں مانتا تھا تو اُن سے بات چیت کو خارج ازامکان قرار دیتا تھابعد میں جب اُس سے براہ راست بات چیت کاآغاز کیاتو اس کے لئے پہلے قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے طالبان کی حیثیت دہشتگرد تنظیم سے بدل کر باقاعدہ سیاسی قوت ڈکلئیر کیا ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہی کچھ افغان معاملے میں کیوں نہیں کیا ؟ کیا امریکی پالیسی ساز اس بات سے انجان تھے کہ اس بات کو ادھورا چھوڑنے سے کل کیا مشکلات پیدا ہوسکتے ہیں ؟ یقیناً جانتے تھے اگر نہیں تو یہ انتہا ئی افسوسناک بات ہے کیونکہ اب یہ مسلہ دوسرے کئی مسائل کیساتھ ملکر افغان مسلے کو مزید اُلجھائےگا ۔امریکہ کی یہ خود فریبی یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ افغان حکومت کیساتھ طالبان کیساتھ بھی ایسا رویہ اختیار کیا گیا جس سے وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ وہ فاتح ہیں جو درحقیقت ایک بدتریں فریبکاری تھی جس سے طالبان یہ سمجھنے لگے کہ امریکہ اپنی باعزت واپسی کے بدلے وہی کرے گا جو ہم کہیں گے ۔اسی غلط فہمی کو تقویت دینے امریکہ نے بات چیت کے تمام پروسیس سے افغان حکومت کو باہر رکھا اور خود کو طالبان کا سُننے والا دکھارہاتھالیکن وہ جھوٹ تھا ٹھیک ایسے ہی کابل حکومت سے امریکہ کا دوری اوراُس پرکم اعتبار کرنے کا تاثربھی حقیقت پر مبنی نہیں تھا ۔

امریکہ کے ایسے خود فریبانہ اقدامات نے کئی دیگر افغان دشمن یا موقع پرست قوتوں کو سازشیں کرنے اور افغان حکومت کو کمزور کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا یہاں الیکشن کے انعقاد کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرنا،ایک کیئر ٹیکر حکومت کیلئے کوششیں ،بعد میں الیکشن پروسیس کو مشکوک بنانا اور آخر میں بیک وقت دو حکومتوں کی تشکیل کا اعلان سب کے سب صرف اس لئےممکن ہوئیں کہ کچھ قوتیں اس غلط فہمی میں حقیقی طور پر مبتلا ہوئے کہ امریکہ طالبان کو حکومت منتقل کرنے والا ہےسو جب تک طالبان کے آنے کی تیاریاں مکمل ہوں ہم کیئرٹیکر میں جگہ بنائیں گے ۔ان تمام منفی کوششوں کے پیچھےپاکستان و ایران کےہاتھ کی موجودگی قدم قدم پر محسوس کی گئی جو کسی بہانے اس حکومت کو ہٹا کراپنی پیرول پرایک بے دست وپا حکومت کی تشکیل کرکے مکمل انارکی کیلئے زمین ہموار کرنے کے ہمیشہ سے خواہاں رہے ہیں ۔

گوکہ وہ مکمل طور پر ایسا کرنے کامیاب نہیں ہوئے مگر داخلی کشمکش کو ہوا دے کر موجودہ حکومت کو بُری طرح کمزور و ناتواں کرنے ضرور کامیاب ہوئے جس سے فائدہ اُٹھا کر پاکستان نے طالبان کیساتھ ملکر بہت سے مراعات حاصل کئے ممکنہ گفتگو کو درپیش مشکلات: اب جب بظاہر تمام رکاوٹیں دور ہوئی ہیں اوربین الافغانی مذاکرات کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں مگر حقیقت عین اس کے برعکس ہے کیونکہ نہ وہ مذاکرات ہوں گےجنکی توقع کی جارہی ہے اور نہ کوئی ایسامعاہدہ ہوگا جس سے افغانوں کے زخموں پر مرہم رکھا جاسکے ۔

افغانستان میں عام آدمی سے لیکر حکمرانوں تک امن چاہتے ہیں طالبان جنگ بندی چاہتے ہوں گے امریکہ کی بھی یہی خواہش ہوگی کہ اس جنگ سے نہ صرف باعزت کنارہ کشی اختیار کرسکے بلکہ ایک ایسا میکانزم بھی وجود میں لائے جوریجن میں اُس کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنائےمگر ایسا صرف اس لئے ممکن نہیں کیونکہ پاکستان طالبان کے کندھوں پر بندوق رکھ کر امریکہ سے وہ کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے جو وہ خوداپنا اعتبار کھونے کے باعث حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔

بظاہر بات افغانستان میں قیام امن کی راہیں تلاش کرنے کی ہورہی مگر حقیقت میں یہ تلاش یہ کوششیں پاکستان کے مفادات کے شکنجے میں یرغمال ہیں۔ پاکستان طالبان و افغان حکومت کے مابین گفتگو کے عوض امریکہ سے ہندوستان کو پاکستان کیساتھ تعلقات نارمل سطع پر لانے،ایف اے ٹی ایف میں گرے لسٹ سے اخراج اور سعودی عرب سمیت عرب ممالک کیساتھ تعلقات دوبارہ بہتر کرنے میں مدد چاہتا ہے، مگرلگتاہے جتنی مراعات پاکستان کو پہلے مل چکی ہے اُس سے زیادہ امریکہ دینے کو آمادہ نہیں ۔

طالبان نے امریکہ سےگفتگو کے آغاز سے اب تک بہت اُمیدیں لگا رکھی تھیں مگر اب مذاکرات کے میز پراُنھیں اپنے کمزور موقف کے سبب وہ کامیابی نہیں ملنے والی جس کی وہ توقع کرتے تھےاب میز پر باقاعدہ بیٹھنے سے پہلے اُنھیں اندازہ ہوگیا کہ وہ میدان جنگ میں رعب جمانے ضرور کامیاب ہوئے ہیں مگر مذاکرات کے میز پر اُن کا ہاتھ مکمل خالی ہے ۔یہی وہ سبب ہے جس سے بین الافغانی مذاکرات تعطل کا شکار ہیں اورمختلف بہانوں سے وقت ضائع کرنے کے حربے اپنائے جارہے ہیں ۔طالبان کے پاس عام افغان سے لیکر بین القوامی دنیا کو مطمئن کرنےایک جنگ بندی کے سوا کوئی دوسراپوائنٹ نہیں جووہ کرنہیں سکتے اُنکی طرز حکمرانی نہ افغانوں کیلئے پُرکشش ہے اور نہ دنیا کیلئے قابل قبول جبکہ افغان حکومت کی طرف سے رکھے گئے جنگ بندی ،خواتین و نوجوانوں کے آزادی بارے واضع موقف ،گذشتہ بیس برسوں میں جمہوریت کا سفرجاری رکھنے جیسے تمام مطالبات نہ صرف عام افغان کے مطالبات ہیں بلکہ یورپی یونین ، امریکہ سمیت پوری مہذب دنیا ان کا حامی ہے ۔

گفتگو کے آغاز سے امریکہ کی طرف سے افغان حکومت کو یکسرنظرانداز کرنے اور طالبان کے سامنے موجودہ حکومت کے قبولیت کا سوال تک نہ اُٹھانے سے طالبان یہی سوچ رہے تھے کہ وہ موجودہ حکومت کو ہٹاکر طالبان کو کسی نمائشی جرگہ ،شوری یا کسی کیئرٹیکر حکومت کے زریعے اقتدار سونپ دیں گے لیکن اب یہاں عین موقع پر افغان عوام یورپی یونین ،نیٹو اور دنیا کو گواہ بنا کر سوال و جواب کئے جارہے ہیں ،وضاحتیں اور ضمانتیں مانگی جارہی ہیں اور اُنکی طرف سے شراکت اقتدار کاکہا جارہا ہے جس کو وہ تسلیم ہی نہیں کرتے ۔

اب یہ سارا پروسیس ایک اور وجہ سے بھی دشواریوں کاشکار ہونے والا ہے کیونکہ طالبان کے کندھوں پر اپنے اقتدار تک آنے کا بوجھ کیساتھ ساتھ پاکستان کیلئے امریکہ و دنیا سے کئی مراعات حاصل کرنے کا بوجھ بھی ہے۔اُن کیلئے ایک مشکل یہ بھی ہے کہ پاکستان کا گھسا پٹا منصوبہ بھی ٹھیک طرح سے کام ہونے کی ضمانت نہیں دے سکتا جس کے تحت ایران کے انقلاب کی طرح طالبان افغانستان کے تمام سیاسی و اجتماعی و لسانی قوتوں کو امن کا لالچ دے کر اعتماد میں لے کر امریکہ کی مدد سے اقتدار پر قبضہ کرلیں پھر تمام قوتوں کو ایسے رستے سے ہٹائیں جیسے ایران میں آخوندوں نے کیا تھا۔طالبان اور پاکستان دونوں اچھی طرح جانتے ہیں کہ گذشتہ بیس برسوں میں یہاں پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہا ہے اور تاریخ کا پہیہ اُلٹا گھمانا نا ممکن ہےاس لئے نہ وہ جنگ بندی کریں گے نہ شریک اقتدار ہوں گے بلکہ امریکہ کو اُس وقت تک الجھائے رکھیں گے جب تک اُسے یہ بات سمجھ نہیں آئے گی کہ وہ کسی طالبان ،داعش ،القاعدہ یا جیش محمدوغیرہ سے نہیں بلکہ براہ راست آئی ایس آئی سے لڑرہا ہے ۔

جس وقت امریکہ اور دنیا کو یہ بات سمجھ آگئی کہ پاکستان ہی اُم الفساد ہےاور اس کے بدمعاشیوں کے تدارک کیلئے عملی قدم اُٹھایااور افغان حکومت پر یکطرفہ و مسلسل دباو بڑھانے کے بجائےپاکستان پردباوبڑھایا تویقین کیجئے افغان مسلہ ھفتوں میں بخیروخوبی سے حل ہوگا۔بصورت دیگر پاکستا ن اپنے اتحادیوں کیساتھ ملکر ہربار نئے طریقے سے نئی سازشیں کرے گااور افغانستان و ریجن میں بیگناہوں کے قتل کا یہ سلسلہ پنجاب کے مفادات کیلئے یونہی جاری رہے گا۔
{ختم شُد}

یہ بھی پڑھیں

فیچرز