کابل (ہمگام نیوز) کنگز کالج لندن کے پروفیسر انتونیو جسٹوسی نے طالبان مخالف مزاحمت اور طالبان کے درمیان نسلی کشیدگی میں تازہ ترین عسکری اور سیاسی پیش رفت پر نظر ڈالی ہے تاکہ موسمِ بہار میں طالبان کے خلاف نئی مسلح مزاحمت کے امکانات کا اندازہ لگایا جا سکے۔
تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا اور افغانستان کے کئی حصوں میں یہ افواہ ہے کہ اس موسم بہار میں طالبان کی اماراتِ اسلامی کے خلاف بغاوت میں شدت آ سکتی ہے۔
عملی طور پر ملک کے شمال میں مسلح سرگرمیوں کے کچھ آثار ملے ہیں۔ قومی مزاحمتی محاذ (احمد مسعود کی قیادت میں) جیسے مزاحمتی گروپوں کی رپورٹس مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں، لیکن پنجشیر اور اندراب میں چھوٹے پیمانے پر گوریلا سرگرمیاں اب بھی جاری ہیں، سمنگان میں بھی سرگرمیوں کی اطلاعات ہیں۔
فروری میں، عنایت اللہ، ایک سابق مقامی پولیس کمانڈر جو طالبان میں شامل ہوئے اور پھر تاجکستان فرار ہو گئے تھے، انھوں نے راغیستان (بدخشاں) میں لڑائی شروع کر دی اور دور دراز دیہاتوں پر کنٹرول حاصل کر لیا۔
ایسا لگتا ہے کہ ان کا تعلق تاجکستان میں قائم شمالی مزاحمتی محاذ سے ہے۔
نیشنل آرمی کے سابق جنرل عبد المتین سلیمان خیل کی سربراہی میں ایک نیا گروپ جو پہلے ’نیشنل اسلامک موومنٹ فار دی لبریشن آف افغانستان‘ کے نام سے جانا جاتا تھا، نے حال ہی میں اپنے وجود کا اعلان کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ وہ جلد ہی قومی نیٹ ورک کے ساتھ اپنی مسلح سرگرمیاں شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔
تنظیم کا دعویٰ ہے کہ وادی خیبر میں مولوی خیبر نامی طالبان کمانڈر ان کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں۔ اب تک یہ گروپ طالبان کے خلاف پہلی ایسی مسلح اپوزیشن ہے جو بظاہر پشتونوں پر مشتمل ہے۔
واضح رہے کہ اس میں سے کوئی بھی اس وقت بہت سنجیدہ نہیں ہے لیک ن آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں مقامی بغاوت میں شدت آ سکتی ہے۔ طالبان فکر مند دکھائی دیتے ہیں اور مبینہ طور پر 10 ہزار افراد کو کمک کے طور پر شمال میں بھیج چکے ہیں ـ