کابل(ہمگام نیوز)مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں کام کرنے والی نیوزی لینڈ کی حاملہ صحافی شارلٹ بیلس کو نیوزی لینڈ آنے کی اجازت مل گئی۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق نیوزی لینڈ کی صحافی شارلٹ بیلس کو نیوزی لینڈ میں قرنطینہ کرنا ہوگا۔
نیوزی لینڈ کی ڈپٹی وزیراعظم کے مطابق شارلٹ بیلس کو انکی درخواست کے جائزے کے بعد قرنطینہ سلاٹ دیا گیا۔
یاد رہے کہ نیوزی لینڈ کی صحافی کو نیوزی لینڈ آنے کی اجازت نہ ملنے پر طالبان نے پناہ کی پیشکش کی تھی۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں قطر میں ملازمت کے دوران حاملہ ہونے والی نیوزی لینڈ کی خاتون صحافی شارلوٹ بیلیس نے انکشاف کیا تھا کہ کورونا کی وجہ سے عائد ہونے والی سفری پابندیوں کی وجہ سے جب اُنہیں ان ہی کے ملک کی جانب سے وطن جانے کی اجازت نہیں دی گئی تو انہوں نے کابل میں طالبان سے پناہ کی درخواست کی۔
گزشتہ سال طالبان کی جانب سے امریکی انخلاء پر حکومت کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان کی پہلی کانفرنس میں شرکت کی وجہ سے مقبول ہونے والی خاتون صحافی شارلوٹ نے طالبان سے براہِ راست سوال کیا تھا کہ ’آپ خواتین اور لڑکیوں کے تحفظ اور حقوق کیلئے کیا کریں گے؟‘
خاتون صحافی نے اپنے ہی ملک کی جانب سے انہیں واپسی سے انکار کیے جانے پر اپنے ہی اخبار میں ایک طویل اداریہ شائع کیا جس میں انہوں نے اپنے مسائل اور ذہنی کرب کا احاطہ کیا ۔
ستمبر میں بیلس افغانستان سے قطر کے دارالحکومت دوحہ پہنچیں تو انہیں معلوم ہوا کہ وہ اپنے ساتھی جم ہائلبروک سے حاملہ ہیں۔ ہائلبروک نیویارک ٹائمز میں فوٹوگرافر ہیں جو اُس وقت کابل میں تعینات تھے۔
بیلس کیلئے حالات ناقابل یقین تھے کیونکہ ان کی میڈیکل ہسٹری میں ڈاکٹروں نے لکھا تھا کہ وہ کبھی ماں نہیں بن سکتیں لیکن ساتھ ہی اس صورتحال کا مطلب یہ بھی تھا کہ وہ غیر شادی شادہ اور حاملہ ہوتے ہوئے قطر میں مزید قیام نہیں کر سکتیں کیونکہ یہ صورتحال مسلم ملک کے قوانین کیخلاف تھی۔
بیلس نے اس صورتحال میں اپنی ملازمت سے استعفیٰ دیدیا اور انہیں توقع تھی کہ وہ نیوزی لینڈ واپس جا کر مئی تک بچے کی ولادت کا مرحلہ مکمل کر لیں گی تاہم کیوی حکومت نے کورونا کی وجہ سے اپنے ملک کے دروازے بند کر دیے تھے اور فروری تک ملکی سرحدیں اپنے شہریوں کیلئے کھولنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔