کابل( ہمگام نیوز)اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سنہ 2016 میں افغانستان میں ہلاک اور زخمی ہونے والے عام شہریوں کی تعداد میں گذشتہ آٹھ برس کی نسبت سب سے زیادہ رہی ہے۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2016 میں بچوں کی ہلاکتوں کی تعداد بھی سالانہ بنیاد پر سب سے زیادہ رہی ہے اور یہ ایک انتہائی تشویشناک بات ہے۔افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے آٹھ سال قبل عام شہریوں کی ہلاکتوں کا ریکارڈ رکھنا شروع کیا تھا۔مشن کا کہنا ہے کہ 2016 میں ساڑھے گیارہ ہزار افراد ہلاک یا زخمی ہوئے جن میں سے نو سو سے زیادہ بچے تھے۔رپورٹ کے مطابق زیادہ تر ہلاک شدگان حکومتی افواج اور شدت پسندوں کے درمیان لڑائی میں پھنس گئے تھے۔اگرچہ ملک میں طالبان ہی مرکزی عسکریت پسند تنظیم ہے تاہم شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کی جانب سے کیے جانے والے حملوں میں دس گنا اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2016 میں جنگ سے متعلق متاثرہ افراد کی تعداد 11418 تھی جن میں سے 3498 افراد ہلاک اور7920 زخمی ہوئے۔
ان میں سے بچوں کی تعداد 3512 تھی (923 ہلاک اور 2589 زخمی) جو کہ اس سے قبل متاثرین کی سالانہ بلند ترین تعداد سے 24 فیصد زیادہ ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سال دولتِ اسلامیہ کے حملوں کی وجہ سے 899 افراد ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔ افغانستان میں دولتِ اسلامیہ ایک قدرے کمزور عسکری گروہ تھا تاہم 2016 میں اس کی کارروائیوں میں شدید تیزی دیکھی گئی ہے۔اقوام متحدہ کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے ٹاڈا میچی یاماموٹو کا کہنا تھا کہ ’میں دولتِ اسلامیہ کی جانب سے عام شہریوں پر سوچے سمجھے اور بلا امتیاز حملوں کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ ان حملوں کا مقصد افغانستان کی جنگ کو بڑھانا اور افغان معاشرے میں تفرقہ ہیدا کرنا ہے۔‘افغان فضائیہ کی صلاحیتوں میں اضافے اور امریکی فضائی جنگی مہم میں تیزی کے بعد عام شہریوں کی ہلاکتوں میں 2016 میں اتنا اضافہ ہوا ہے جو کہ 2009 کی سطح تک پہنچتا ہے۔امریکی حکام نے اس سارے حملوں کے باوجود صرف ایک واقعے میں عام شہریوں کی ہلاکت کا اعتراف کیا تھا جب اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ نومبر میں قندوز صوبے میں امریکی اور افغان مشترکہ کارروائی میں 32 عام شہری ہلاک ہوئے تھے۔